کتاب: حجیت حدیث (اسماعیل سلفی) - صفحہ 32
استعمال ہوگا اور جب قرائن کمزورہوں تواَنَّ اور اَنْ مخففہ کے ساتھ مستعمل ہوگا جومعدومات میں عموماً استعمال ہوتے ہیں۔ “ اس کےبعد قرآن کریم سے اس کی تائید میں کافی امثلہ دی ہیں ۱۔ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ ( ۲/۴۶) ”انہیں یقین ہے کہ وہ اللہ سے ملیں گے۔ “ ۲۔ أَلَا يَظُنُّ أُولَـٰئِكَ أَنَّهُم مَّبْعُوثُونَ لِيَوْمٍ عَظِيمٍ (۴/۸۳) ”کیاانہیں یقین نہیں کہ وُہ ضرور اٹھیں گے۔ ۳۔ وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ (۲۸/۷۵) ”اسے یقین ہوتاہے کہ اب جان گئی۔ “ ۴۔ وَظَنُّوا أَنَّهُم مَّانِعَتُهُمْ حُصُونُهُم (۲/۵۹) ”انہیں یقین تھاکہ یہ قلعے ان کوبچالیں گے۔ “ ۵۔ أَنَّا ظَنَنَّا أَن لَّن نُّعْجِزَ اللَّـهَ فِي الْأَرْضِ (۱۲/۷۲) ”ہمیں یقین ہے کہ ہم اللہ کوکمزور نہیں کرسکتے۔ “ ۶۔ وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَمَا ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَبْعَثَ اللَّـهُ أَحَدًا (۱۲/۷) ”انہیں بھی تمہاری طرح یقین تھا کہ اللہ کوئی نبی نہیں بھیجے گا۔ “ ۷۔ بَلْ ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَنقَلِبَ الرَّسُولُ (۱۲/۴۸) ”تمہیں یقین تھاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (تبوک سے) واپس نہیں ہوں گے۔ “ ان تمام مواقع میں ظن علم ویقین کےمعنی میں استعمال ہوا ہے فی الواقع ہو یا متکلم کے خیال کے مُطابق۔ آپ قرآن عزیز میں اگرایک طالب علم کی طرح غور کریں گے تووہاں یہ فرق اور طریق سے بھی واضح فرمایا گیا ہے۔ جہاں ظن کو حق کے مقابل ذکر کیا گیاہے وہاں شک اور وہم کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ( نجم)