کتاب: حجیت حدیث (اسماعیل سلفی) - صفحہ 31
موجود ہیں۔ ان تصریحات کی روشنی میں ظن کا عرفی مفہوم توواضح ہوجاتاہے یعنی یہ لفظ علم ویقین میں بھی استعمال ہوتا ہے اور شک وتخمین کےمفہوم میں بھی بولاجاتاہے۔ انحصار قرائن پر ہے جیسے قرائن ہوں گے ویسے ہی معانی میں استعمال ہوگا۔ علمائے عربیت کی رائے اس کے متعلق اور بھی صاف ہے۔ علامہ ابوالبقاء یعیش بن علی بن یعیش (۶۴۳ھ ) مفصل زمخشری کی شرح میں فرماتےہیں :۔ الظن ان یتعارض دلیلان ویترجع احدا ھما علی الاخر و قد یقوی المرجع فیستعمل بمعنی العلم والیقین نحو قوله تعالیٰ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو ارَبِّهِمْ ( ابن العیش ص ۷۷ ج۲ ) ”دومتعارض دلیلوں کانام ظن ہے اور جب راجح ہوتواسے علم ویقین سے تعبیر کیاجاتاہے جیسے يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو ارَبِّهِمْ سے ظاہر ہوتاہے۔ “ پھر اسی کتاب کےساتویں جلد میں مسئلہ اور بھی صاف فرمادیاہے قول اوررؤیت بھی کبھی ظن ہی کےمعنی میں استعمال ہوتاہے۔ غرض حواس ظاہری سے جوچیز معلوم کی جائے اسے ضروری یا بدیہی کہنا چاہیے اسی طرح جو چیزیں وجدان سے تعلق رکھتی ہیں وہ بھی بدیہی اور ضروری ہوں گی۔ ا ور جوچیزیں عقل سے تعلق رکھتی ہیں اگر عقلی دلائل متعارض ہوں اور ترجیح کی کوئی وجہ نہ ہوتواسے ترددیاشک کہنا چاہیے اور اگر ترجیح کے دلائل مل جائیں توراجح کو ظن کہاجاتا ہے اور مرجوح کوشک یاوہم سے تعبیر کیاگیاہے۔ ۱ھ ( ابن العیش ج۷ ص۸۱۔ ۷۸) علامہ حسین بن محمد بن مفضل راغب اصفہانی ( ۵۰۲ھ ) نےمفردات القرآن میں ان قرائن کو ایک قاعدہ کی صورت دی ہے، فرماتےہیں : ومتیٰ قوی اوتصورتصورالقویٰ استعمل معه اَنّ المشددۃ واَن المحفقة منیلومتیٰ ضعف استعمل اِنَّ واَن المختصه بالمعدومین من القول والفعل (مفردات راغب ص۳۱۹) ”جب قرائن قوی ہوں توظن کااستعمال اَنّ مشدد اور اَنْ مخفف کے ساتھ