کتاب: حجیت حدیث (اسماعیل سلفی) - صفحہ 20
محدثین نے آحاد کوقبول فرمایاہے۔ ان سے مسائل استنباط فرماکر آحاد کی ظنّیت کوشکوک واوہام کےمترادف نہیں گردانا جیسا کہ اکثر منکرین حدیث سمجھتے یاکہتے ہیں۔ آئمہ اسلام نے رائے اور قیاس پر اخبار آحاد کو ہمیشہ ترجیح دی ہے۔ اسی لیے اہل ِ علم نے اجتماعی طور پرعلم الحدیث کوتاریخ اور اخباری روایات سے بالکل الگ سمجھاہے۔ آئمہ حدیث اور آئمہ تاریخ کا تعلق عام اور خاص کا سا ہے۔ یعنی ہرمحدث اخباری ہوتا ہے لیکن ہر اخباری محدث نہیں ہوتا۔
بعض اہلِ علم دونوں فنُون کے جامع ہیں۔ حافظ ابن جریر، حافظ ابن کثیر، امام بخاری، ذہبی وغیرہ محدث بھی ہیں اور مؤرخ بھی لیکن مؤرخین میں مسلم اور غیر مسلم سب شامل ہیں اس لیے وُہ محدث نہیں ہوسکتے۔
میرا مقصدیہ ہے کہ چونکہ حدیث کے پورے ذخیرہ کاثبوت اس طرح متواتر نہیں جس طرح قرآن عزیز کامتواتر ہے۔ اسی لیے آئمہ سنت نے احادیث کوادلّہ شرعیہ میں ثانوی حیثیت دی ہے لیکن ثبوت مسائل کےلحاظ سے بعض وقت نصوصِ حدیث ‘قرآن سے بھی مقدم ہوتے ہیں۔ مسئلہ حدیث سے ثابت ہوتاہے اور امت اس پرعرصہ تک عمل کرتی رہتی ہے مگرقرآن میں اس کی تائیدمدتوں بعد ہوتی ہے۔ مثلاً
۱۔ نماز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر معراج کی رات فرض ہوئی۔ اس کی تفصیلات یعنی اذکار، تعداد ِ رکعات اسی وقت بذریعہ سنت واضح فرمائے گئے۔ قرآن عزیز نے اس کے بعد اجمالاً ان کی تائید فرمائی اور یہ سلسلہ عرصہ تک چلتارہا۔ ( البرھان زرکشی۔ اتقان)
۲۔ نمازکے لیے طہارت شرط تھی۔ معراج کی صبح جبریل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوطہارت کا طریق سکھایا۔ پھر صحابہ رضی اللہ عنہم بالالتزام وضو کرتے اور نماز ادافرماتے رہے لیکن سورۂ مائدہ واقعہ معراج سے تقریباً آٹھ سال بعد۶ھ میں نازل ہوئی جس میں وضواور اس کے فرائض بیان فرمائے گئے۔ معلوم ہے کہ معراج کاسفر صحیح روایت کے مُطابق ۱۲ھ نبوی میں ہوا یعنی ہجرت سے قریب قریب دوسال پہلے۔
۳۔ نمازجمعہ مدینہ منوّرہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اور ہجرت سے پہلے ہی صحابہ رضوان اللہ اجمعین