کتاب: حجیت حدیث (اسماعیل سلفی) - صفحہ 19
موضُوع بحث :۔
ہمارے پیش نظر موضوع میں سنت اور حدیث مترادف ہیں اور شرعاً یہ دونوں حجت ہیں بلکہ جن احادیث کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوا ل سے تعبیر کیاجاتاہے وہ بھی دراصل افعال ہی ہیں کیونکہ قول زبان کا فعل ہے اسی طرح تقریر اور اجتہاد یہ بھی دارصل فعل ہی ہیں اور سنت ان سب کوشامل ہے اور تکمیل دین کے لیے ان سب پر یقین اور ایمان لانا ضروری ہے ورنہ قرآن اور متواتر سنن اپنی کثرت کے باوجُودزندگی کے تمام گوشوں پر حاوی نہیں ہوسکتے۔
مسلم الثبوت میں بھی سنت کی تعریف اس طرح کی گئی ہے۔ ماصدر عن الرسول غیر القرآن من قول وفعل وتقریر ( شرح مسلم الثبوت بحر العلوم ۳۸۶)
آئمہ سنت کےنزدیک جوسنت حجت ِ شرعیہ شمارکی گئی ہے اور جسے احکام کاماخذ سمجھا گیا وُہ ضروری ہے کہ قرآن کےعلاوہ ہو۔ اس کی تصریحات قرآنِ عزیز کی تصریحات سے مختلف ہوں گی لیکن مخالف نہیں ہوں گی۔
سُنت کی حیثیت:۔
قرآن عزیز کےا لفاظ جس تواتر اور قطعیت سے ہم تک پہنچے ہیں سنت کووہ مقام حاصل نہیں ہوا۔ سنت کا گوبُہت بڑاذخیرہ متواتر ہے لیکن تمام مروی متون کو قطعیت اور تواتر کا یہ شرف حاصل نہیں ہوا۔ عبادات اور اعمال کا کثیر سرمایہ متواتر ہے نماز، اس کے فرائض، سُنن اذکار تنوع کے باوجود بحیثیت مجمُوعی متواترہیں مگر معاملات، مغازی اور سیرت کا بُہت ساذخیرہ اخبار آحاد ہیں۔ علم الاسناد کے مباحث اور رجال میں جرح وتعدیل کی وجہ سے آحاد کے ذخیرہ میں وہ قطعیت نہیں رہتی۔ عبادات کے بھی بعض گوشے آحاد ہی کےمرہون منت ہیں لیکن ان آحاد کا مقام بھی اخباری روایات سے کہیں زیادہ ارفع ہے۔ محدثین کی تنقید اور نقل، اخبار اور تاریخ سے مختلف اور بُہت زیادہ موثق ہے بلکہ علماء نے صحیح اخبار آحاد کےقبول اوران پرعمل کے وجوب پر اتفاق فرمایا۔ ان سے جو علم حاصل ہوتاہے گووہ متواتر کےبرابرنہیں ہوتا لیکن بذات خود وُوہ قابل استنادہے۔ تعارض کے وقت ہوسکتا ہے کہیں آحاد کونظر اندازکیاجائے ورنہ عام حالات میں تمام فقہاء اور