کتاب: حجیت حدیث (اسماعیل سلفی) - صفحہ 130
کرناچاہے بلکہ ایک تیسری صورت پیدا کردے جونہ صحیح ہو نہ ہی متکلم کا مطلب اور مراد ہو، یہ دونوں لحاظ سے جھوٹ ہوگا لیکن اگر متکلّم صحیح اور نفس الامر کےمُطابق گفتگو کرے لیکن مخاطب کواندھیرے میں رکھناچاہے اور اپنے مقصد کو اس پر ظاہر نہ ہونے دے، ا سے تعریض اور توریہ کہاجاتاہے۔ یہ متکلم کےلحاظ سے صدق ہے اورتفہیم کےلحاظ سے کذب ہے۔ اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے کذب سےتعبیر کیا۔ درآں حالیکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جوکچھ فرمایا وُہ حقیقت میں صحیح تھا، شناعت ِ عامہ سے بچنےکےلیے یہی مناسب طریق تھا۔
نامناسب نہ ہوگا، یہاں اگرحافظ ابن قیم کے استاذ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی بھی”صدق وکذب خبر“ سےمتعلق نفیس تحقیق پیش کردی جائے۔
الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح ۲۸۸ج۴میں فرماتےہیں۔
وَالْخَبَرُ تَارَةً يَكُونُ مُطَابِقًا لِمَخْبَرِهِ كَالصِّدْقِ الْمَعْلُومِ أَنَّهُ صِدْقٌ، وَتَارَةً لَا يَكُونُ مُطَابِقًا لِمَخْبَرِهِ كَالْكَذِبِ الْمَعْلُومِ أَنَّهُ كَذِبٌ وَقَدْ تَكُونُ الْمُطَابَقَةُ فِي عِنَايَةِ الْمُتَكَلِّمِ، وَقَدْ يَكُونُ فِي إِفْهَامِ الْمُخَاطَبِ إِذَا كَانَ اللَّفْظُ مُطَابِقًا لِمَا عَنَاهُ الْمُتَكَلِّمُ، وَلَمْ يُطَابِقْ إِفْهَامَ الْمُخَاطَبِ، فَهَذَا أَيْضًا قَدْ يُسَمَّى كَذِبًا، وَقَدْ لَا يُسَمَّى، وَمِنْهُ الْمَعَارِيضُ، لَكِنْ يُبَاحُ لِلْحَاجَةِ۔ ملحضاً
(و) بعض اہل علم نے دوسری راہ بھی اختیار فرمائی ہے، ان کا خیال ہے کہ کذب ہرحال میں حرام نہیں۔ بسااوقات ضرورۃً شارع نے اس کی اجازت دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : لیس الکاذب الذی یصلح بین الناس ( ترمذی) احادیث میں بعض مصالح کا صراحۃً بھی ذکر آیاہے۔ ا بن حزم کا رجحان الفصل میں اسی طرف ہے۔ نئےلوگوں میں سے حسن احمد الخطیب نے”فقہ الاسلام“میں اس مسلک کا ذکر فرمایا ہے:
ومن ذالک اباحتھم الکذب اذاترتب علی الصدق مفسدۃ عظیمة وقدفصل الحموی فی الاشباہ الکلام فی ذالک فقال