کتاب: حجیت حدیث (اسماعیل سلفی) - صفحہ 12
مالک تھے یہی وجہ ہے کہ مولانا سیدداؤدغزنوی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد جمیعت اہل ِ حدیث کی امارت کے لیے اکابر جماعت کی نگاہ انتخاب آپ کی ذات گرامی پر پڑی۔ آپ قلم وقرطاس کےمیدان میں بھی ہم عصر علماء سے بہت آگے تھے۔ اگرچہ دوسری جماعتی ذمہ داریوں کے ہجوم میں مولانا کو تحریر ونگارش کازیادہ موقع نہیں مل سکاتاہم آپ نے جوکچھ لکھا ہے ذمہ داری کے ساتھ لکھا ہے اور خوب لکھاہے۔ آپ کے مضامین ومقالات کی اشاعت کا شرف آج کل اسلامک پبلشنگ ہاؤس کو حاصل ہے۔
جمعیّت اہل حدیث مغرب پاکستان [1]کاقیام آپ کی مساعی جمیلہ کامرہون منت ہے۔ آپ نے ہی مولانا محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ کو جماعت کی قیادت کے لیے آمادہ کیا تھا اور پھر آخر تک ان کا ساتھ بھی دیا۔ پاکستان میں اسلامی نظام قائم کرنےکے لیے دوسری دینی جماعتوں کے ساتھ جمعیت اہل حدیث بھی کوشاں رہی۔ اس ضمن میں قومی سطح کے بعض اہم اجلاسوں میں جمعیّت اہل حدیث کی نمائندگی مولاناداؤد غزنوی رحمہ اللہ کے علاوہ آپ بھی کرتے رہے۔ چنانچہ آپ کو اس کمیٹی کا رُکن بنایاگیاجو ۱۹۵۲ء میں اسلامی آئین کی تشکیل کے لیے وجود میں آئی تھی۔
مدارس عربیہ کےقیام کی طرف بھی آپ نے ہمیشہ خصوصی توجہ دی اور نتیجۃً ملک کے دور دراز حصوں میں متعدد عربی مدارس کا قیام عمل میں آیا۔ ا س سلسلہ میں بلتستان اور آزاد کشمیر کے بعض مدارس قابل ذکرہیں مگر جس تعلیمی ادارے سے آپ کو خاص تعلق ِ خاطر تھا وہ ”الجامعۃ السلفیہ“فیصل آباد ہے۔ الجامعۃ السلفیہ کی تعمیر، تدریس، انتظام اور لائبریری کے قیام میں بنیادی حصّہ آپ ہی کا تھا، جامعہ کے معیارِ تعلیم وتدریس کے اعلیٰ مدارج تک پہنچانے کے لیے مدینہ یونیورسٹی کے چانسلر فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز حفظہ اللہ سے آپ نےخط وکتابت فرمائی اور وہاں سے اساتذہ حاصل کیے، یہ سارے مراحل طے ہوچکے کہ آپ کے انتقال کا حادثہ پیش آگیا۔
مولانا محترم اگرچہ وفات سے چند سال قبل مرض اعصاب میں مبتلا چلے آرہے تھےتاہم حالت کچھ ایسی تشویشناک نہ تھی۔ بس ۲۰ذوالقعدہ ۱۳۷۸ھ مطابق ۲۰فروری
[1] واضح رہےکہ مولانامرحوم کےزمانۂ امارت میں مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان ایک مملکت تھے