کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 98
ملاوٹ سے پاک(چھنا ہوا اور خالص)ہو،اور آپ کے فرمان:’’ لیس فیھا علم لأحد‘ ‘کے معنیٰ ہیں کہ اس میں کسی کی کوئی علامت نہ ہوگی،نہ کوئی رہائش گاہ نہ عمارت اور نہ کوئی نشان ہوگا اور نہ ہی راستوں کے نشانات میں سے کوئی چیز ہوگی،جیسے پہاڑ اور بڑے(نمایاں)چٹان وغیرہ،اور اس سے دنیا کی زمین کی طرف اشارہ ہے کہ وہ فنا ہوجائے گی[1]۔ (21)جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اتقوا الظلم فإن الظلم ظلمات یوم القیامۃ،واتقوا الشح،فإن الشح أھلک من کان قبلکم،حملھم علی أن سفکوا دماء ھم،واستحلوا محارمھم‘‘[2]۔ ظلم سے بچو،کیونکہ ظلم قیامت کے دن تہ بہ تہ تاریکی ہوگا اور بخل سے بچو،کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو بخل نے ہلاک وبرباد کردیا،انہیں اپنا خون بہانے اور محارم کو حلال سمجھنے پر آمادہ کردیا۔ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’حدیث کا ظاہر دلالت کرتا ہے کہ ظالم کو قیامت کے دن یہ سزا دی جائے گی کہ وہ تہ بہ تہ تاریکیوں میں ہوگا،جس دن مومنین ایسی روشنی میں ہوں گے جو ان کے سامنے اور دائیں جانب سے دوڑے گی،جس وقت منافق مرد اور عورتیں مومنوں سے کہیں گے: ﴿انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِكُمْ﴾۔ ہمارا انتظار تو کرو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں۔ تو ان سے جوابا ًکہاجائے گا: ﴿ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا﴾‘‘[3]۔
[1] المفھم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم للقرطبی،7/350،وشرح نووی علی صحیح مسلم،17/140،وفتح الباری لابن حجر،11/375۔ [2] صحیح مسلم،کتاب البر والصلہ،باب تحریم الظلم،4/1996،حدیث(2578)،وصحیح بخاری،کتاب المظالم،باب الظلم ظلمات یوم القیامہ بروایت عبد اللّٰه بن عمر رضی اللّٰه عنہما،بالفاظ:’’الظلم ظلمات یوم القیامۃ‘‘ 3/136،حدیث(2447)۔ [3] المفھم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم،6/556،اور آیت کریمہ سورۃ الحدید(13)کی ہے،نیز دیکھئے:شرح نووی علی صحیح مسلم،16/370،واکمال اکمال المعلم بشرح صحیح مسلم للابی،8/534۔