کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 88
سورئہ ہود،سورئہ واقعہ،سورئہ مرسلات،سورئہ عم یتساء لون(نبأ)اور سورئہ اذا الشمس کورت(تکویر)نے مجھے بوڑھا کردیا(میرے بال سفید کردیئے)۔ ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ کے بال سفید ہوگئے! تو آپ نے فرمایا: ’’شیبتني ھود وأخواتھا‘‘[1]۔ سورئہ ہود اور اس کی بہنوں(ہم موضوع سورتوں)نے میرے بال سفید کردیئے۔ اللہ عزوجل ہی درستی کا توفیق دہندہ ہے۔ (13)عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا:’’میں تمناکرتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم با حیات رہیں یہاں تک کہ ہمیں پیچھے چھوڑ یں - آپ کا مقصود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سب سے آخر میں وفات پاتے- لیکن اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی ہوجائے تو اللہ نے تمہارے درمیان ایک نور بنا رکھا ہے جس سے تم ہدایت یاب ہوگے‘ جس سے اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت عطا فرمایا تھا‘‘[2]۔ عمر رضی اللہ عنہ کے قول میں ’’نور‘‘ سے مراد قرآن عظیم ہے کیونکہ اس میں ہدایت اور نور ہے،چنانچہ جو اس پر عمل کرے گا وہ صراط مستقیم اور روشن حق پر گامزن ہوگا[3]۔ (14)عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’إن اللّٰه عز وجل خلق خلقہ في ظلمۃ فألقی علیھم من نورہ،فمن أصابہ من ذلک النور اھتدی،ومن أخطأہ ضل،فلذلک أقول:جف القلم علی علم اللّٰه‘‘[4]۔
[1] الشمائل للترمذی،اور علامہ البانی نے مختصر شمائل الترمذی(ص 40،حدیث:35)میں صحیح قرار دیا ہے۔ [2] صحیح بخاری،کتاب الاحکام،باب الاستخلاف،8/160،حدیث(7219)۔ [3] دیکھئے:فتح الباری لابن حجر،13/209،وارشاد الساری للقسطلانی،15/180۔ [4] جامع ترمذی،کتاب الایمان،باب ماجاء فی افتراق ھذہ الامہ،5/26،حدیث(2642)اور انھوں نے فرمایا ہے کہ ’’یہ حدیث حسن ہے‘‘ ومسند احمد،2/176،نیز امام حاکم نے بھی اس کی تخریج کی ہے اور صحیح قرار دیا ہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت فرمائی ہے،1/30،علامہ البانی نے اس کی سند کو سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ(حدیث/1076)میں صحیح قرار دیا ہے۔