کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 85
میں(راقم)کہتا ہوں کہ جہاں تک سلف رحمہم اللہ جو سیاہی کا استعمال کیا کرتے تھے ان کے عذر کی بات ہے تو وہ اس بات پر محمول ہے کہ انہیں سیاہی سے رنگنے کے بارے میں صریح ممانعت کی حدیث نہیں پہنچی تھی،واللہ اعلم۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ہمارا مذہب یہ ہے کہ مرد وعورت کے لئے بالوں کو زرد یا سرخ سے رنگنا مستحب ہے اور صحیح ترین قول کے مطابق کالا خضاب لگانا حرام ہے‘‘[1]۔ سیاہ خضاب کی حرمت کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ اور ان کے موافقین کے اختیار کردہ رائے کی تائید عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یکون قوم یخضبون في آخر الزمان بالسواد کحواصل الحمام،لا یریحون رائحۃ الجنۃ‘‘[2]۔ آخری زمانہ میں کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو کبوتر کے سینہ کی مانند کالا خضاب لگائیں گے،ایسے لوگ جنت کی خوشبو بھی نہ پائیں گے۔ میں(راقم)نے سماحۃ الامام علامہ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ کو اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:’’اس حدیث کی سند جید(عمدہ)ہے،اور یہ حدیث بالوں کو سیاہی سے بدلنے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے اور اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ یہ گناہ کبیرہ ہے،کیونکہ یہ وعید ہے‘‘[3]۔
[1] صحیح مسلم بشرح نووی،14/325۔ [2] سنن ابوداود،کتاب الترجل،باب ماجاء فی خضاب السواد،4/87،حدیث(4212)،وسنن نسائی کتاب الزینہ،باب النہی عن الخضاب بالسواد،8/138،حدیث(5075)،ومسند احمد،1/273،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری(6/499)میں فرمایا ہے:’’ اس حدیث کی سند قوی ہے‘‘نیز علامہ البانی نے اس کی سندکو غایۃ المرام فی تخریج احادیث الحلال والحرام میں صحیح قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ شیخین(امام بخاری و مسلم)کی شرط پر ہے،ص 84۔ [3] یہ بات میں نے آں جناب سے مورخہ 21/8/1418ھ کو بروز اتوار بعد نماز مغرب بدیعہ(ریاض)کی جامع امیرہ سارہ میں سنن نسائی کی حدیث(5075)کی شرح کرتے ہوئے سناہے۔