کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 84
2- بالوں کی سفیدی میں لوگوں کے حالات کا مختلف ہونا،چنانچہ بعض صاف ستھرے سفیدبال خضاب شدہ بالوں سے خوبصورت لگتے ہیں،اور اس کے بر عکس بھی ہوتا ہے،لہٰذا جسے خضاب برا لگے وہ اس سے اجتناب کرے‘ اور جسے اچھا لگے وہ استعمال کرے،اور خضاب کے دو فائدے ہیں:
پہلا فائدہ:گرد وغبار اور دھوئیں وغیرہ سے بالوں کی حفاظت۔
دوسرا فائدہ:اہل کتاب(یہود ونصاریٰ)کی مخالفت [1]،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’إن الیھود والنصاری لا یصبغون فخالفوھم‘‘[2]۔
یہود ونصاریٰ اپنے بالوں کو نہیں رنگتے ہیں،لہٰذا ان کی مخالفت کرو۔
مزید فرماتے ہیں:’’لیکن یہ بالوں کا رنگنا سیاہی کے علاوہ سے ہوگا،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’واجتنبوا السواد‘‘ یعنی سیاہی سے اجتناب کرو،واللہ اعلم‘‘[3]۔
نیز فرماتے ہیں:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان’’واجتنبوا السواد‘‘ یعنی سیاہی سے اجتناب کرو،کالے خضاب سے اجتناب کرنے کا حکم ہے،اور ایک جماعت نے اسے ناپسند کیا ہے،ان میں سے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور امام مالک رحمہ اللہ بھی ہیں،اس حدیث سے ظاہر بھی یہی ہوتا ہے،اس(کالے سے اجتناب)کی علت یہ بھی بتائی گئی ہے کہ یہ عورتوں سے حیلہ اپنانے کے قبیل سے ہے،اور یہ کہ وہ چہرے میں سیاہی ہے،لہٰذا ناپسندیدہ ہے‘ کیونکہ یہ جہنمیوں کے حلیہ سے مشابہت رکھتا ہے‘‘[4]۔
پھر آپ(امام قرطبی رحمہ اللہ)نے سلف صالحین کی ایک بڑی جماعت کا ذکر کیا ہے‘ جواپنے بالوں کو سیاہی سے رنگا کرتے تھے،اور فرمایا ہے کہ’’ میں نہیں جانتا کہ ابو قحافہ کی حدیث کے تئیں ان کا کیا عذر ہوسکتا ہے؟ لہٰذا اس کا کم سے کم درجہ کراہت ہے جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب ہے‘‘[5]۔
[1] المفھم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم،5/420۔
[2] متفق علیہ بروایت ابو ہریرہ رضی اللّٰه عنہ:صحیح بخاری،کتاب احادیث الانبیائ،باب ماذکر عن بنی اسرائیل،4/175 حدیث(3462)وصحیح مسلم،کتاب اللباس والزینہ،باب فی مخالفۃ الیہود فی الصبغ،3/1663،حدیث(2103)۔
[3] المفھم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم،5/420۔
[4] حوالہ سابق،5/419۔
[5] حوالہ سابق،5/419۔