کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 8
’’کفر‘ بدعت‘ نافرمانی‘ جہالت‘ اور غفلت کی تاریکیوں سے نکال کرایمان‘ سنت‘ اطاعت‘ علم اور یاد وبیداری کی روشنی کی طرف لاتا ہے‘‘[1]۔
واضح رہے کہ دنیا میں ان معنوی انوار سے سعادتمندوں کو اللہ عزوجل ان کے ایمان وعمل صالح کے بقدر آخرت میں حسی اور ظاہری انوار سے نوازے گاجن کی روشنی میں وہ قبر وحشر اورپل صراط کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں بآسانی چلیں گے،ارشاد باری ہے:
﴿يَوْمَ لَا يُخْزِي اللّٰهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ ۖ نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ(٨)﴾[التحریم:8]۔
جس دن اللہ تعالیٰ نبی کو اور مومنوں کو جو ان کے ساتھ ہیں رسوا نہ کرے گا ان کا نور ان کے سامنے اور دائیں دوڑ رہا ہوگا،یہ دعائیں کرتے ہوں گے اے ہمارے رب!ہمیں کامل نور عطا فرما اور ہمیں بخش دے یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’’چنانچہ کسی کا نور آفتاب کی طرح ہوگا [2] اور کسی کا اس سے کم چاند کی طرح اور کسی کا اس سے کم آسمان میں روشن ستارے کی طرح اور کسی کا اس سے کم اپنی قوت وضعف کے اعتبارسے چراغ کی طرح اور اس سے قریب قریب ‘اور کسی کو دنیا میں اس کے نور ایمان کے مطابق پیر کے انگوٹھے پر روشنی عطا کی جائے گی جو کبھی روشن ہوگی اور کبھی گل ہوجائے گی،بعینہ یہی وہ نور ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے آخرت میں ظاہر کرے گا جو کھلی نگاہوں سے نظر آئے گا،اس سے کوئی دوسرا شخص روشنی نہ حاصل کر سکے گا(بلکہ)ہر شخص اپنی خاص روشنی میں چلے گا،اگر اس کے پاس روشنی ہوگی تو اپنی روشنی میں چلے گا اور اگر اس کے پاس سرے سے روشنی نہ ہوگی تو دوسرے کی روشنی اسے کوئی فائدہ نہ دے گی‘‘[3]۔
اسی طرح جو لوگ اس دنیا میں اللہ کے معنوی انوار سے محروم ہوئے اور طرح طرح کی ظلمتوں میں گھرے رہے وہ قبر وحشر اور پل صراط کی گھپ تاریکیوں میں بھی رب ذو الجلال کے حسی انوار سے محروم رہیں گے،جبکہ انہیں اس نازک موقع پر روشنی کی سخت ضرورت ہوگی،اللہ عزوجل نے اس صورت حال کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا:
[1] تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان للسعدی،ص 188
[2] دیکھئے:مسند احمد،2/77،2/222،وشرح مسند احمد للشیخ احمد شاکر،حدیث(6650،7072)
[3] اجتماع الجیوش الاسلامیہ از علامه ابن قيم،2/86۔