کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 67
عملنا باطل،ولک الأجر الذي جعلت لنا فیہ،فقال لھم:أکملوا بقیۃ عملکم فإنما بقي من النھار شيء یسیر،فأبوا،فاستأجر قوماً أن یعملوا لہ بقیۃ یومھم،فعملوا بقیۃ یومھم حتی غابت الشمس،واستکملوا أجر الفریقین کلیھما،فذلک مثلھم ومثل ماقبلوا من ھذا النور‘‘[1]۔
مسلمانوں‘یہودیوں اور نصاریٰ کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے کچھ لوگوں کو متعین مزدوری کے عوض دن بھرکے لئے کام پر رکھا،ان لوگوں نے آدھے دن تک کام کیا پھر کہنے لگے کہ ہمیں آپ کی طے کردہ مزدوری کی ضرورت نہیں اور جو کام ہم نے کیا ہے وہ باطل ہے،(ہماری محنت اکارت گئی)تو اس نے ان سے کہا:ایسا نہ کرو بلکہ اپنا کام مکمل کرکے اپنی پوری مزدوری لے لو،لیکن انھوں نے انکار کیا اور کام چھوڑ دیا،اس شخص نے ان کے بعد دوسرے کچھ لوگوں کو اجرت پر رکھا اور ان سے کہا:دن کے بقیہ حصہ کا کام مکمل کرو اور تمہارے لئے وہی مزدوری ہے جو میں نے ان(پہلے مزدوروں)کے لئے طے کی تھی،چنانچہ انھوں نے کام کیا یہاں تک کہ جب عصر کا وقت ہوا تو کہنے لگے کہ ہم نے آپ کا جو کام کیاہے وہ باطل ہے(ہماری محنت بیکار گئی)اور ہمارے لئے آپ کی طے کردہ مزدوری آپ ہی کے لئے ہے(ہمیں وہ مزدوری نہیں چاہئے)تو اس شخص نے ان سے کہا:اپنا بقیہ کام مکمل کرلوکیونکہ دن کا تھوڑا حصہ ہی باقی ہے،انھوں نے نہ مانا،چنانچہ اس شخص نے باقی ماندہ کام کے لئے دوسرے لوگوں کو اجرت پر رکھا،انھوں نے بقیہ کام کیا یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اور دونوں فریقوں کی مکمل مزدوری حاصل کرلی،چنانچہ یہ ان کی اوراس نورکی مثال ہے جسے انھوں نے قبول کیا۔
علامہ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اس بات کا احتمال بھی ہے کہ یہ امر عام ہو جس میں اہل کتاب اور غیر اہل کتاب سبھی شامل ہوں،بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان اور تقویٰ کا حکم دیا ہے جس میں ظاہر وباطن اور اصول وفروع سمیت پورا دین داخل ہے،اور یہ کہ اگر وہ اس امر عظیم کی تابعداری کریں تو اللہ انہیں ’’اپنی رحمت کے دو حصے‘‘ عطافرمائے گا،جن کی تعداد اور کیفیت کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے،
[1] صحیح بخاری،کتاب الاجارہ،باب الاجارۃ من العصر الی اللیل،3/69،حدیث(2271)۔