کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 63
تاریکیوں میں مساجد جانا،وہ نبیوں اور اہل ایمان صدیقین‘شہداء اور نیکوکاروں کے ساتھ ہوگا اور یہ بہت ہی اچھے ساتھی ہیں[1]،اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پل صراط پر گزرنے کی سرعت نور کے اعتبار سے ہوگی،چنانچہ جس کا نور بڑا ہوگا پل صراط پر اس کا گزرنا بھی تیز تر ہوگا،پل صراط تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہوگا،کچھ لوگ اس پر سے پلک جھپکنے میں گزر جائیں گے،کچھ بجلی کی طرح گزریں گے،کچھ ہوا کے مانند اور کچھ اس پر سے پرندے کی طرح،کچھ تیزرفتار گھوڑے کے مثل اوراونٹ سوار کی طرح گزریں گے[2]،اور کچھ رینگیں گے[3]،یہاں تک کہ اخیر میں وہ شخص آئے گا جو گھسٹ کر گزرے گا[4]۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ روشنیاں پل صراط پر اعمال کے اعتبار سے تقسیم کی جائیں گی،چنانچہ بندہ کو وہاں اس کے نور ایمان ویقین اور اخلاص کی قوت اور دنیوی زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع وپیروی کے اعتبار سے نور عطا کیا جائیگا،چنانچہ فرماتے ہیں:’’چنانچہ کسی کا نور آفتاب کی طرح ہوگا [5] اور کسی کا اس سے کم چاند کی طرح اور کسی کا اس سے کم آسمان میں روشن ستارے کی طرح اور کسی کا اس سے کم اپنی قوت وضعف کے اعتبارسے چراغ کی طرح اور اس سے قریب قریب اور کسی کو دنیا میں اس کے نور ایمان کے مطابق پیر کے انگوٹھے پر روشنی عطا کی جائے گی جو کبھی روشن ہوگی اور کبھی گل ہوجائے گی،بعینہ یہی وہ نور ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے آخرت میں ظاہر کرے گا جو کھلی نگاہوں سے نظر آئے گا،اس سے کوئی دوسرا شخص روشنی نہ حاصل کر سکے گا(بلکہ)ہر شخص اپنی خاص روشنی میں چلے گا،اگر اس کے
[1] دیکھئے:شرح الطیبی علی مشکاۃ المصابیح،3/941،942،وفیض القدیر شرح الجامع الصغیر للمناوی،3/201،وتحفۃ الاحوذی للمبارکفوری،2/14۔ [2] یہ چھ مراتب صحیح مسلم میں وارد ہیں،کتاب الایمان،معرفۃ طریق الرؤیہ،1/169،حدیث(183)،ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ پل صراط بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہوگا‘‘صحیح مسلم،1/171،حدیث(183)،وصحیح بخاری،کتاب التوحید،باب قول اللّٰه تعالیٰ:{وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرۃ}[سورۃ القیامہ:22،23]،8/228،حدیث(7439)۔ [3] صحیح مسلم کی ایک روایت سے ماخوذ ہے،1/187،حدیث(195)۔ [4] صحیح بخاری کی ایک روایت سے ماخوذ ہے،حدیث(7439)،نیز دیکھئے:معارج القبول للشیخ حافظ الحکمی،2/850 تا 857۔ [5] دیکھئے:مسند احمد،2/77،2/222،وشرح مسند احمد للشیخ احمد شاکر،حدیث(6650،7072)۔