کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 61
اس نور کے سلسلہ میں بہت سی احادیث اور آثار وارد ہوئے ہیں،ان میں چند حسب ذیل ہیں:
1- جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ ان سے ’’ورود‘‘ کے بارے میں دریافت کیا گیا،اس(حدیث)میں دیدار الٰہی کا بھی ذکر ہے،انھوں نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ ان(جنتیوں)کے سامنے ہنستے ہوئے تجلی فرمائے گا،فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ انہیں لے کر چلے گا وہ اللہ کے پیچھے چلیں گے،اور ان میں سے ہر شخص کو- خواہ وہ مومن ہو یامنافق ، نور عطا کیا جائے گا اور وہ اس کے پیچھے پیچھے چلیں گے اور جہنم کے پل پر آنکڑے اور خار ہوں گے جو اللہ کی مشیت کے مطابق جسے چاہیں گے پکڑ لیں،پھر منافقوں کا نور گل کردیا جائے گا،اور مومن نجات پائیں گے اور(سب سے پہلے)جنتیوں کا جو گروہ نجات پائے گا ان کے مکھڑے چودہویں شب کے چاند کے مانند روشن ہوں گے،پھر جو ان کے بعد ہوں گے وہ آسمان کے تاروں کے مثل روشن ہوں گے ‘‘[1]۔
2- عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمان باری﴿يَسْعَىٰ نُورُهُم بَيْنَ أَيْدِيهِمْ﴾(ان کی روشنی ان کے آگے دوڑرہی ہوگی)کے بارے میں مروی ہے،وہ فرماتے ہیں:’’انہیں ان کے اعمال کے بقدر نور عطا کیا جائے گا،چنانچہ ان میں سے کسی کو پہاڑ کے مثل نور دیا جائے گا،کسی کو کھجور کے درخت کے مثل اور کسی کو کھڑے آدمی کے برابر نور عطا کیا جائے گا،ان میں سب سے کمتر نور والا وہ شخص ہوگا جس کا نور اس کے انگوٹھے پر ہوگا جو کبھی روشن ہوگا اور کبھی گل ہوجائے گا‘‘[2]۔
3- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تاریکیوں میں کثرت سے(نماز یا دیگر عبادات کے لئے)مسجدوں کی آمد ورفت قیامت کے دن مکمل نور عطاکئے جانے کا سبب ہوگا،چنانچہ بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
’’بشر المشائین في الظلم إلی المساجد بالنور التام یوم القیامۃ‘‘[3]۔
[1] صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب ادنی اھل الجنۃ منزلا،1/178،حدیث(191)۔
[2] اسے امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے جامع البیان عن تاویل آی القرآن میں روایت کیا ہے،23/179،اور حاکم نے بھی روایت کیاہے اور شیخین کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے،اور امام ذہبی نے امام بخاری کی شرط پر حاکم کی موافقت فرمائی ہے،2/478۔
[3] سنن ابوداود،کتاب الصلاۃ،باب ماجاء فی المشی الی الصلاۃ،1/154،حدیث(561)وجامع ترمذی،کتاب الصلاۃ،باب ماجاء فی فضل العشاء والفجر فی الجماعۃ،1/435،حدیث(233)،امام ترمذی نے فرمایا ہے:’’یہ صحیح‘ مسند‘ صحابہ کرام تک موقوف روایت ہے‘‘ وسنن ابن ماجہ بروایت سہل بن سعد و انس رضی اللہ عنہما،کتاب المساجد والجماعات،باب المشی الی الصلاۃ،1/256،حدیث(780و 781)،ومستدرک حاکم،1/53،امام منذری رحمہ اللہ نے سنن ابوداود اور ترمذی کی روایت کے بارے میں فرمایاہے:’’اس کی سند کے راویان ثقہ ہیں‘‘ دیکھئے:الترغیب والترھیب،1/289،اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے مشکاۃ المصابیح للتبریزی کی تحقیق میں فرمایا ہے:’’یہ حدیث اپنے بکثرت شواہد کی بنیاد پر صحیح ہے ‘ جو دس سے زیادہ صحابہ کرام کی جماعت سے مروی ہیں‘ صحیح سنن ابوداود حدیث(570)کے تحت میں نے ان کی تخریج کی ہے‘‘۔