کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 6
نیز ارشاد فرمایا:
﴿قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ﴾[الرعد:16]۔
کہہ دیجئے کہ کیا اندھا اور بینا برابر ہوسکتا ہے؟ یا کیا تاریکیاں اور روشنی برابر ہوسکتی ہیں۔
نیز ارشاد فرمایا:
﴿وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ(١٩)وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ(٢٠)﴾[فاطر:19،20]۔
اور اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں۔اور نہ تاریکی اور روشنی۔
اور ایک جگہ روشنی سے نکال کر تاریکیوں کی طرف لانے والے طاغوتوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ﴾[البقرۃ:257]۔
اور کافروں کے اولیاء شیاطین ہیں،وہ انہیں روشنی سے نکال کر تاریکیوں میں لے جاتے ہیں۔
نیز اللہ عز وجل نے قرآن کریم کو تاریکیوں سے روشنی میں لانے کا ذریعہ بنایا ہے،ارشاد ہے:
﴿الر ۚ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ﴾[ابراہیم:1]۔
الر! یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لائیں۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ وأنا تارک فیکم ثقلین:أولھما کتاب اللّٰه،فیہ الھدی والنور[ھو حبل اللّٰه المتین من اتبعہ کان علی الھدی،ومن ترکہ کان علی الضلالۃ]فخذوا بکتاب اللّٰه،واستمسکوا بہ‘‘[1]۔
اور میں تمہارے درمیان دو ٹھوس بنیادیں چھوڑ کر جارہا ہوں،ایک اللہ کی کتاب(قرآن مجید)ہے جس میں ہدایت اور نور ہے،اور وہ اللہ کی ایسی رسی ہے کہ جس نے اسے پکڑا وہ راہ یاب ہے اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ گمراہ ہے،لہٰذا اللہ کی کتاب کو لے لو اور اسے ہی حرز جاں سمجھو۔
یوں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوراپنی کتاب کو ’’نور‘‘ کہا ہے اور ان میں تاریک دلوں اور روحوں میں ایمان ویقین کے چراغ روشن کرنے کی قوت وصلاحیت ودیعت فرمائی ہے لیکن نور کا حقیقی مصدر ومنبع خود اللہ عزوجل کی ذات ہے،اس کی ذات سراپا نور ہے،اس کا حجاب نور ہے،وہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے،اس کے اسماء حسنیٰ میں سے ایک نام ’’النور‘‘ ہے،چنانچہ جسے اللہ کا نور نصیب ہو اوہ ہدایت یاب ہوگیا اور جو اللہ کے نور سے محروم ہوا ضلالت
[1] صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابہ،باب فضائل علی بن ابی طالب رضی اللّٰه عنہ،4/1873،حدیث(2408)۔