کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 50
گمراہ کررکھا ہے،کیونکہ وہی(اللہ عزوجل)اپنے فضل و احسان،حکمت اور عدل کے تقاضہ کے مطابق تنہا ہدایت و گمراہی کا مالک ومختار ہے[1]۔
(16)اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
﴿أَفَمَن شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ ۚ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللّٰهِ ۚ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ(٢٢)﴾[2]۔
کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے پس وہ اپنے پروردگار کی طرف سے ایک نور پر ہے اور ہلاکی ہے ان پر جن کے دل یاد الٰہی سے سخت ہو گئے ہیں‘ یہ لوگ صریح گمراہی میں مبتلا ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:کیا جس کے دل اور سینہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت‘ اپنی وحدانیت کے اقرارِ اپنی ربوبیت کے یقین،اپنی اطاعت کے لئے سر تسلیم خم کر دینے کے لئے کھول دیا ہے اور وہ اللہ کی جانب سے ایک نور اور اپنے دل میں حق کے منور ہونے کے سبب وہ(جس ایمان و عقیدہ اور عمل)پر بھی ہے علم اور بصیرت پر گامزن ہے،چنانچہ وہ اس کے حکم کا پیرو اور جس چیز سے اللہ نے اسے منع فرمایا ہے اس سے باز آنے والا ہے،اور اس کا سینہ اسلام کے لئے کھلا ہوا ہے لہٰذا وہ اللہ کے کلام کے حصول اور اس پر عمل آوری کے لئے بڑے ہی شرح صدر اور ٹھنڈی آنکھوں سے کشادہ اور وا ہے(ایسا شخص کیا)اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کے دل کو اللہ نے سخت کردیا ہو ‘ چنانچہ اسے اپنے ذکر سے خالی کردیا ہو اور حق کی سماعت،ہدایت کی پیروی اور درستیٔ عمل سے تنگ کردیا ہو،چنانچہ نہ وہ اللہ کی کتاب کے لئے نرم ہو،نہ اللہ کی آیات سے نصیحت حاصل کرے اور نہ ہی اللہ کی یاد سے مطمئن ہو بلکہ وہ اپنے رب سے اعراض کرکے اس کے علاوہ کی طرف متوجہ ہو ‘ ایسے شخص کے لئے سخت قسم کی تباہی اور برائی ہی برائی ہے[3]۔
[1] دیکھئے:جامع البیان عن تاویل آی القرآن للطبری،11/350،و تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان للسعدی،ص 218۔
[2] سورۃ الزمر:22۔
[3] دیکھئے:جامع البیان عن تاویل آی القرآن للطبری،21/277،والجامع لاحکام القرآن للقرطبی،15/236،وتفسیر القرآن العظیم لابن کثیر،4/51،و تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان للسعدی،ص 668۔