کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 49
مثال ہے،اور بینا،روشنی،سایہ،اور زندے بھی برابر نہیں ہو سکتے،یہ اطاعت گزاروں کی مثال ہے‘‘[1]۔ اور قتادہ فرماتے ہیں:’’(آیت کریمہ میں)بعض مخلوق کو بعض پر فضیلت وبرتری دی گئی ہے،رہا مومن تو وہ زندہ اثر،زندہ نگاہ،زندہ نیت اور زندہ عمل بندہ ہے اور رہا کافر تو وہ مردہ نگاہ،مردہ دل اور مردہ عمل بندہ ہے‘‘[2]۔ لہٰذا اس سے واضح ہو اکہ اللہ کے دین سے اندھا اور جس نے اللہ کے دین کو دیکھا،اسے جانا اور اس پر عمل کیا دونوں برابر نہیں ہوسکتے،اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ﴿أَوَ مَنْ کَانَ مَیْتاً فَأَحْیَیْنَاہُ وَجَعَلْنَا لَہُ نُوْراً یَّمْشِيْ بِہِ فِي النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہُ فِي الظُّلُمَاتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْھَا کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکَافِرِیْنَ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ[3]۔ کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا،پھر ہم نے اس کو زندہ کر دیا اور ہم نے اسے ایک ایسا نور دے دیا کہ وہ اس کو لئے ہوئے آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے،کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں سے نکل ہی نہیں پاتا،اسی طرح کا فروں کو ان کے اعمال خوشنما معلوم ہوا کرتے ہیں۔ نیز اللہ نے تاریکی والوں کے سلسلہ میں فرمایا: ﴿وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا صُمٌّ وَبُكْمٌ فِي الظُّلُمَاتِ مَن يَشَإِ اللّٰهُ يُضْلِلْـهُ وَمَن يَشَأْ يَجْعَلْهُ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ(٣٩)﴾[4]۔ اور جو لوگ ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں وہ تو طرح طرح کی ظلمتوں میں بہرے گونگے ہو رہے ہیں‘ اللہ جس کو چاہے بے راہ کردے اور وہ جس کو چاہے سیدھی راہ پر لگا دے۔ چنانچہ وہ حق کی سماعت سے بہرے ہیں،حق بولنے سے گونگے ہیں لہٰذا وہ باطل ہی بول سکتے ہیں(اور)جہالت،کفر،شرک،ظلم،سرکشی،اعراض اور گناہوں کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں،اور یہ اللہ نے نہیں
[1] جامع البیان عن تاویل آی القرآن للطبری،20/458۔ [2] مرجع سابق،20/458۔ [3] سورۃ الانعام:122۔ [4] سورۃ الانعام:39۔