کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 48
(15)ارشاد باری ہے:
﴿وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ(١٩)وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ(٢٠)وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ(٢١)وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللّٰهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ(٢٢)﴾[1]۔
اور اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں۔اور نہ تاریکی اور روشنی۔اور نہ چھاؤں اورنہ دھوپ۔اور زندے اور مردے برابر نہیں ہوسکتے‘ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے سنا دیتا ہے‘ اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں۔
یہ مثالیں اللہ تعالیٰ نے مومن وایمان اور کافروکفر کے لئے بیان فرمائی ہیں،جس طرح یہ مذکورہ(حسی طورپر)مختلف ومتضادچیزیں برابر نہیں ہو سکتیں اسی طرح تمہیں جاننا چاہئے کہ معنوی طور پر مختلف ومتضاد چیزیں بدرجۂ اولیٰ برابر نہیں ہو سکتیں،چنانچہ کافر ومومن،جاہل وعالم اورگمراہ وہدایت یاب برابرنہیں ہوسکتے اور نہ جنتی وجہنمی برابر ہو سکتے ہیں نہ ہی مردہ دل وزندہ دل برابر ہو سکتے ہیں،کیونکہ ان چیزوں کے درمیان ایسا تفاوت اور فرق ہے جسے اللہ عزوجل ہی جانتا ہے،چنانچہ جب مراتب ودرجات معلوم ہوگئے اور چیزوں کی تمیز وشناخت ہو گئی اور کس چیز کے حصول میں تنافس مناسب ہے اور کس میں نہیں واضح ہو گیا،تو(اب)عقلمندکو چاہئے کہ اپنی ذات کے لئے اس چیز کا انتخاب کرے جو ترجیح کے لائق ہو[2]۔
یہ تفسیر سلف صالحین سے بھی آئی ہے،چنانچہ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالہ سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے فرمان باری﴿وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ﴾کی تفسیر میں فرمایا:’’یہ ایک مثال ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اطاعت شعاروں اور گناہ گاروں کے لئے بیان فرمائی ہے،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اندھا،تاریکیاں اور دھوپ برابر نہیں ہوسکتے اور نہ ہی مردے برابر ہو سکتے ہیں،یہ گنہ گاروں کی
[1] سورۃ فاطر:19 تا 22۔
[2] دیکھئے:جامع البیان عن تاویل آی القرآن للطبری،20/457،والجامع لاحکام القرآن للقرطبی،14/327،وتفسیر القرآن العظیم لابن کثیر،3/530،و تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان للسعدی،ص 634۔