کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 45
(ب)تاریکیوں والے لوگ،یہ جہالت میں ڈوبے ہوئے لوگ ہیں،اس طور پر کہ جہالت نے انہیں ہر طرف سے گھیر رکھا ہے،یہ مویشیوں کی طرح یا ان سے بھی(زیادہ)گمراہ ہیں،چنانچہ ان کی بے بصیرتی اور جہالت پر کئے ہوئے اعمال کی مثال تاریکیوں کی طرح ہے،جہالت کی تاریکی‘ کفر کی تاریکی‘ ظلم اور خواہش نفس کی اتباع کی تاریکی‘ شک وشبہ کی تاریکی اور حق سے اعراض کی تاریکی،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت اور دین حق دیکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے اس سے اعراض کرنے والا پانچ قسم کی تاریکیوں میں گھرا ہوتاہے،اس کی گفتگو تاریک ہوتی ہے‘ اس کا عمل تاریک ہوتا ہے‘ اس کا مدخل تاریک ہوتا ہے‘ اس کا مخرج تاریک ہوتا ہے اور اس کا انجام کار تاریک ہوتا ہے،چنانچہ اس کا دل سیاہ ہے‘ اس کا چہرہ سیاہ ہے،اس کی بات سیاہ ہے اور اس کی حالت سیاہ ہے[1]۔ پھرآپ رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ آپ کے شیخ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: جو ہدایت دیکر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے اس میں لوگوں کی چار قسمیں ہیں: 1- جنہوں نے اس ہدایت کو ظاہری وباطنی طور پر قبول کیا،یہ دو قسم کے لوگ ہیں: پہلی قسم:اہل فقہ وفہم اور اہل تعلیم،یہ وہ ائمہ ہیں جنہوں نے اللہ کی کتاب سے اللہ کے مراد ومقصود کو سمجھا اور اسے امت تک پہنچایا،اور اسی کتاب کے اسرار و رموز اور خزانے نکالے،تو ان کی مثال اس پاکیزہ زمین کی طرح ہے جو پانی جذب کرلے اور خوب خشک وتر گھاس اگائے،جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور ان کے مویشی اس میں چریں اور لوگ اس گھاس کو غذا ‘دوا اور اپنی مصلحت کی تمام چیزوں میں استعمال کریں۔ دوسری قسم:جنہوں نے اسے یاد کیا اور اس کے الفاظ امت تک پہنچائے،چنانچہ انھوں نے ان کے لئے نصوص تو محفوظ کر لئے لیکن وہ شارع کے مقصود میں اہل فقہ واستنباط نہیں ہیں بلکہ سنی ہوئی چیزوں کو یاد کرنے اور انہیں ادا کرنے(پہنچانے)والے لوگ ہیں،ان کی مثال اس زمین کی سی ہے جو لوگوں کے لئے پانی روکے رکھے اور لوگ وہاں آکراس سے سیراب ہوں،اپنے جانوروں کو سیراب کریں اور اس سے کاشت کریں۔
[1] دیکھئے:اجتماع الجیوش الاسلامیہ علی غزو المعطلۃ والجھمیہ،2/53تا 58۔