کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 43
اور اپنے اس عمل کا ضرورتمند ہوگا جس کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ وہ اسے اللہ کے نزدیک نفع پہنچائے گا تو اسے کچھ بھی نفع بخش نہ پائے گا کیونکہ اس نے یہ عمل اللہ کے ساتھ کفر کی حالت میں انجام دیا تھا اور یہ کافر اپنی ہلاکت(موت)کے وقت اللہ کو گھات میں پائے گا،تو وہ اسے اس کے دنیا میں کئے ہوئے اعمال کا پورا بدلہ قیامت کے روز دے گا اور اسے ان اعمال کی وہ جزادے گا جس کا اللہ کی جانب سے وہ مستحق ہوگا۔
دوسری مثال(بھی)اللہ عزوجل نے کافروں کے اعمال کے بطلان کے بارے میں بیان فرمائی ہے کہ(ان کے اعمال)کی مثال اتھاہ پانی والے گہرے سمندر کی تاریکیوں کے مانند ہے جس کے اوپر موج ہو اور اس موج کے اوپر دوسری موج ہوجو اسے ڈھانپے ہوئے ہواور اس دوسری موج کے اوپر بادل ہو،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے تاریکیوں کو کافروں کے اعمال کی مثال اور نہایت گہرے سمندر کو کافروں کے دل کی مثال قرار دیا ہے کہ جن کے عمل کی مثال اندھیروں کی طرح ہے جسے اللہ کے بارے میں لاعلمی و جہالت گھیرے ہوئے ہو،کیونکہ اللہ نے اس کے دل پر مہر لگادی ہے،لہٰذا وہ اللہ کے بارے میں سمجھ نہیں سکتا اور اس کے کان پر مہر لگادی ہے لہٰذا وہ اللہ کے مواعظ سن نہیں سکتا،اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے لہٰذا وہ اللہ کے حق کا مشاہدہ نہیں کر سکتا،چنانچہ یہ تمام چیزیں تہ بہ تہ تاریکیاں ہیں[1]۔
یہ اللہ عزوجل کے اس فرمان کی طرح ہے جس میں اللہ نے فرمایا:
﴿أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللّٰهِ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ(٢٣)﴾[2]۔
کیا آپ نے اسے بھی دیکھا؟ جس نے اپنی خواہش نفس کو معبود بنا رکھا ہے اور باوجود سمجھ بوجھ کے اللہ نے اسے گمراہ کردیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی ہے اور اس کی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا ہے،اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے،تو کیا یہ نصیحت نہیں حاصل کرتے۔
[1] دیکھئے:جامع البیان عن تاویل آی القرآن للطبری،19/195تا 199،وامثال القرآن لابن القیم،ص 22،وتفسیر القرآن العظیم لابن کثیر،3/286۔
[2] سورۃ الجاثیہ:23۔