کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 42
(13)اللہ عزوجل نے کافروں کے اعمال کے ضائع اور رائیگاں ہونے کے سلسلہ میں دو مثالیں بیان فرمائی ہیں،ارشاد ہے:
﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللّٰهَ عِندَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ وَاللّٰهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ(٣٩)أَوْ كَظُلُمَاتٍ فِي بَحْرٍ لُّجِّيٍّ يَغْشَاهُ مَوْجٌ مِّن فَوْقِهِ مَوْجٌ مِّن فَوْقِهِ سَحَابٌ ۚ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا وَمَن لَّمْ يَجْعَلِ اللّٰهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِن نُّورٍ(٤٠)﴾[1]۔
اور کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ہوئی ریت کے ہیں جو چٹیل میدان میں ہو جسے پیاسا شخص دور سے پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا‘ ہاں اللہ کو اپنے پاس پاتا ہے جو اس کا حساب پورا پورا چکا دیتا ہے،اللہ بہت جلد حساب کردینے والا ہے۔یا مثل ان اندھیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہ میں ہوں جسے اوپر تلے کی موجوں نے ڈھانپ رکھا ہو‘ پھر اوپر سے بادل چھائے ہوئے ہوں،الغرض اندھیریاں ہیں جو اوپر تلے پے درپے ہیں،جب اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی قریب ہے کہ نہ دیکھ سکے،اور(بات یہ ہے کہ)جسے اللہ تعالیٰ ہی نور نہ دے اس کے پاس کوئی روشنی نہیں ہوتی۔
چنانچہ پہلی مثال اللہ عزوجل نے ان کافروں کے اعمال کے لئے بیان فرمائی ہے جنہوں نے اللہ کی توحید کا انکار کیا اور قران اور اس کی لائی ہوئی باتوں کی تکذیب کی،ان کے کئے ہوئے اعمال کی مثال اس چمکتے ہوئے ریت کی سی ہے جو چٹیل میدان میں ہو جسے پیاسا شخص(دور سے)پانی سمجھتا ہے اور جب اپنی پیاس بجھانے کے لئے پانی کی تلاش میں وہاں پہنچتا ہے تو اس ریت کو کچھ نہیں پاتاہے،(بعینہ)اسی طرح اللہ کا کفر کرنے والے بھی اپنے کئے ہوئے اعمال کے سلسلہ میں دھوکے(خوش فہمی)میں مبتلا ہیں سوچتے ہیں کہ یہ اعمال انہیں اللہ کے یہاں اس کے عذاب سے نجات دلائیں گے،جیسا کہ پیاسا شخص سراب(چمکتی ریت)کو پانی سمجھتا ہے،تو اس کا گمان اس کی پیاس بجھا کر اسے سیراب کر دے گا یہاں تک کہ جب وہ ہلاک ہوگا
[1] سورۃ النور:39،40۔