کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 41
اور گندگی سے دور رہتا ہے اور اپنی صلابت وشدت کے سبب اللہ کے معاملہ میں شدت اور اللہ کی ذات کے سلسلہ میں سختی کا رویہ اپناتا ہے اور اللہ کے دشمنوں پر فولاد ہوجاتا ہے نیز اللہ عزوجل کے واسطے حق انجام دیتا ہے،اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے دلوں کو برتنوں کی مانند بنایا ہے،جیسا کہ بعض سلف نے کہا ہے:’’دل اللہ کی زمین میں اس کے برتن ہیں،اور اس کے نزدیک محبوب ترین برتن وہ ہیں جو سب سے باریک‘ سب سے سخت اور سب سے صاف ستھرے ہوں‘‘[1]۔اور ’’چراغ ‘‘بندے کے دل میں اللہ کا نور ہے اور ’’بابرکت درخت‘‘ ہدایت اور دین حق پر مشتمل وحی الٰہی کا درخت ہے،یہ چراغ کا مادہ ہے جس سے چراغ روشن کیا جاتا ہے،اور ’’نور پر نور‘‘ صحیح فطرت اور صحیح ادراک کا نور نیز وحی اور کتاب کا نور ہے،چنانچہ دونوں نور ایک دوسرے میں مل جاتے ہیں تو بندہ کا نور دوبالا ہوجاتا ہے،اسی لئے بندہ اس(وحی)میں جو اثر ہے اسے سننے سے قبل ہی حق وحکمت کی بات کرنے لگتا ہے،پھر جس طرح اس کے دل میں جاگزیں ہوتا ہے اور وہ اسے بولتا ہے اس طرح وہ اس پر اثر انداز ہوتا ہے،چنانچہ اس کے پاس عقل‘ شریعت‘ فطرت اور وحی سب اکٹھا ہوجاتے ہیں،چنانچہ اس کی عقل ‘ اس کی فطرت اور اس کا ذوق اسے یہ دکھاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی باتیں حق ہیں‘ اس کے نزدیک عقل ونقل میں قطعاًکوئی تعارض نہیں ہوتا‘ بلکہ دونوں ایک دوسرے کی تصدیق اور موافقت کرتے ہیں،تو یہ ’’نور پر نور‘‘ ہونے کی علامت ہے بر عکس اس شخص کے جس کے دل میں باطل شبہات اور فاسد خیالات کی موجیں جوش وطغیانی پر ہوں[2]۔
[1] خالد بن معدان سے بطریق ابو امامہ مرفوعاً مروی ہے: ’’ان للّٰه تبار ک وتعالیٰ في الأرض آنیۃ وأحب آنیۃ اللّٰه الیہ ما رق منھا وصفا وآنیۃ اللّٰه في الأرض قلوب عبادہ الصالحین‘‘۔ بیشک زمین میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے برتن ہیں،اور اللہ کا سب سے محبوب برتن وہ ہے جو نرم اور صاف ستھرا ہو،اور زمین میں اللہ کا برتن اس کے نیک بندوں کے دل ہیں۔ کتاب الزہد،از امام احمد،ص 283،حدیث(827)،علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سندیں ذکر کرنے کے بعد اسے سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ(4/263،حدیث/1691)میں صحیح قراردیا ہے۔ [2] اجتماع الجیوش الاسلامیہ،2/49 تا52،قدرے تصرف کے ساتھ۔