کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 40
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’یہ عجیب تشبیہ جس پر آیت کریمہ مشتمل ہے ‘ اس میں بڑے اسرار ورموز اور معانی ہیں،اور اللہ نے اپنے بندے کو جو نور عطا فرمایا ہے جس سے سرفراز مندوں کی آنکھیں ٹھندی ہوں گی اور ان کے دل مسرت وشادمانی سے مچلیں گے،اسی کے ذریعہ اپنے بندۂ مومن پر اپنی نعمت کی تکمیل کا اظہار ہے،اور تشبیہ میں ’’اہل معانی‘‘ کے دو طریقے ہیں:
1- تشبیہ مرکب کا طریقہ:یہ طریقہ ماخذ کے اعتبار سے قریب تر اور محفوظ ہے،وہ یہ ہے کہ جملہ کو مجموعی طور پر مومن کے نور سے تشبیہ دیدی جائے،مشبہ کے اجزاء میں سے ہر جزو کی تفصیل اور اسے مشبہ بہ کے جزو سے موازنہ کرنے سے تعرض نہ کیا جائے،قرآن کریم کی عام مثالیں اسی قبیل سے ہیں‘ چنانچہ مشکاۃ(طاق)کی صفت میں غور کریں کہ یہ طاق ہے جس میں راستہ نہیں ہوتا‘ تاکہ روشنی کو اکٹھا کئے رکھے،اور اس طاق میں چراغ رکھا گیا ہے،اور وہ چراغ شیشہ کی ایسی قندیل کے اندر ہے جو اپنی صفائی اور خوبصورتی میں چمکتے ہوئے روشن ستارے کی مانند ہے‘ اور اس کامادہ سب سے زیادہ صاف شفاف اورخوب تیز جلنے والے اس درخت کے تیل کا ہے جو نہ مشرقی ہے اورنہ ہی مغربی‘ کہ اسے سورج کی دھوپ دن کے دونوں حصوں میں سے کسی ایک حصہ(ہی)میں لگے،بلکہ اسے سورج کی دھوپ انتہائی مناسب ومعتدل انداز میں لگتی ہے،چنانچہ اس درخت کے تیل کی روشنی کی تیزی ‘ صفائی اور حسن کے سبب قریب ہے کہ وہ آگ لگائے بغیرخود ہی روشنی دینے لگے۔
چنانچہ یہ مرکب مجموعہ اللہ کے اس نور کی مثال ہے جسے اس نے اپنے بندہ کے دل میں رکھا ہے اور اسے اس کے ساتھ خاص قرار دیا ہے۔
2- تشبیہ مفصل کا طریقہ:چنانچہ کہا گیا ہے کہ ’’مشکاۃ ‘‘مومن کا سینہ ہے اور ’’شیشہ‘‘ اس کا دل ہے اوراس کے دل کو شیشہ سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ اس میں باریکی‘ صفائی اور صلابت ہوتی ہے ‘ اور مومن کا دل بھی اسی طرح ہوتا ہے،اس میں بھی(مذکورہ)تینوں اوصاف پائے جاتے ہیں:چنانچہ وہ اپنی رحمت اور نرمی کے سبب رحم کرتا ہے‘ احسان کرتا ہے‘ محبت کرتا ہے اور مخلوق پر شفقت کرتا ہے،اور اس کی صفائی کے سبب علوم وحقائق کی صورتیں اس میں اپنی اصل شکل وصورت میں نظر آتی ہیں اور صفائی کے اعتبار سے وہ میل کچیل