کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 39
نُورٍ﴾نور پر نور ہے،یعنی آگ کا نور اور تیل کا نور،اللہ عزوجل کی بیان کردہ اس مثال کی توجیہ اور مومن کی حالت اور اس کے دل میں اللہ کے نور کی تطبیق(یوں ہے کہ)بندہ ٔ مومن کی فطرت جس پر اس کی پیدائش ہوئی ہے صاف وشفاف تیل کی مانند ہے،چنانچہ اس کی فطرت صاف اور الٰہی تعلیمات اور مشروع عمل کے لئے آمادہ اور تیار ہے،چنانچہ جب اس تک علم اور ایمان پہنچتا ہے تو آگ کے چراغ کی بتّی(فیتہ)کو جلانے کی طرح وہ نور اس دل میں روشن ہوجاتاہے،دراں حالیکہ ا س کا دل قصد وارادہ صاف اور اللہ کے بارے میں سوء فہم سے پاک ہوتا ہے ‘ چنانچہ جب اس تک ایمان پہنچتا ہے تووہ خوب خوب روشنی پیدا کرتا ہے کیونکہ وہ آلائشوں سے پاک وصاف ہوتا ہے،بعینہ اسی طرح جس طرح شیشہ کی قندیل صاف ستھری ہوتی ہے،چنانچہ اس کے لئے فطرت کا نور ‘ ایمان کا نور‘ علم کا نور‘ معرفت کی ستھرائی اور اس کے نور پر نور سب اکٹھا ہوجاتے ہیں،اور جب یہ اللہ کا نور ہے جو ہر کس وناکس کے لئے درست نہیں ہے تو فرمایا﴿يَهْدِي اللّٰهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ ۚ﴾اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنے نور کی ہدایت دیتا ہے،جس کی صفائی وطہارت کا اسے علم ہوتا ہے نیز یہ کہ وہ اسے پاکر مزید بڑھے گا اور پروان پائے گا،﴿وَيَضْرِبُ اللّٰهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ﴾اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ(اللہ کے مقصود کو)سمجھ سکیں،(یہ)محض اللہ کی جانب سے ان پر نرمی اور احسان کے طورپر اور اس لئے تاکہ حق باطل سے واضح ہوجائے،کیونکہ مثالیں عقلی مفاہیم کو محسوسات سے قریب کردیتی ہیں اور بندے انھیں واضح طور پر سمجھ لیتے ہیں،﴿وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا جاننے والا ہے‘ چنانچہ اس کا علم تمام چیزوں کو محیط ہے،لہٰذا آپ لوگ جان لیں کہ اس کا مثالوں کوبیان کرنا اس(ذات)کے مثال بیان کرنے کی طرح ہے جو چیزوں کی حقائق اور ان کی تفصیلات کا علم رکھتا ہے‘ نیز یہ کہ یہ مثالیں بندوں کی مصلحت کے لئے ہیں،لہٰذا تمہاری مشغولیت ان میں غور وتدبر کرنے اور انہیں سمجھنے میں ہونی چاہئے نہ کہ ان پر اعتراض اور ان سے معارضہ واختلاف میں‘ دراں حالیکہ تمہیں علم نہیں‘‘[1]۔ اس آیت کریمہ میں شروع سے اخیر تک بڑے عظیم فوائد اور حکمت پر مبنی نہایت بلیغ مثالیں ہیں،اسی لئے
[1] تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان للسعدی،ص 517۔