کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 38
کے لئے بندۂ مومن کے دل میں اس قرآن کریم کی مثال اس چراغ سے بیان فرمائی ہے جو طاق میں ہو،اور یہ آیت کریمہ سراپا مثال ہی ہے،اللہ سبحانہ وتعالیٰ علم کی بنیاد پر مثالیں بیان فرماتا ہے[1]۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے﴿نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ﴾کی تفسیرمیں فرمایا:’’یہ بندہ کا ایمان اور اس کا عمل ہے‘‘:چنانچہ وہ پانچ طرح کی روشنیوں میں گھراہوتا ہے:اس کا کلام نور ہے،اس کا عمل نور ہے،اس کا مدخل نور ہے،اس کا مخرج نور ہے اور اس کا انجام کار بھی قیامت کے روز نوریعنی جنت ہوگا‘‘[2]۔ علامہ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ نے بھی اس آیت کریمہ کی تفسیر پر گفتگو فرمائی ہے(فرماتے ہیں:)﴿مَثَلُ نُورِهِ﴾اس کے نور کی مثال جس کی طرف وہ رہنمائی فرماتا ہے وہ مومن کے دل میں ایمان اور قرآن کا نور ہے،﴿كَمِشْكَاةٍ﴾اس طاق کی مانند ہے﴿فِيهَا مِصْبَاحٌ﴾جس میں چراغ ہو کیونکہ طاق چراغ کی روشنی کو اکٹھا کئے ہوتا ہے منتشر نہیں ہونے دیتا،﴿الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ﴾چراغ شیشہ کی قندیل میں ہے اور ’’شیشہ‘‘ اپنی صفائی اور حسن میں﴿كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ﴾روشن ستارہ کی مانند ہے‘ یعنی موتی کی طرح روشن ہے﴿يُوقَدُ﴾وہ چراغ جو اس شیشہ کی قندیل میں ہے﴿مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ﴾ایک بابرکت زیتون کے درخت سے جلایا جاتا ہے یعنی زیتون کے تیل سے روشن کیاجاتا ہے‘ جس کی آگ انتہائی روشن ہوتی ہے﴿لَّا شَرْقِيَّةٍ﴾وہ نہ صرف مشرقی ہے کہ دن کے آخری پہر میں اسے سورج کی دھوپ نہ لگے﴿وَلَا غَرْبِيَّةٍ﴾اور نہ ہی صرف مغربی ہے کہ دن کے ابتدائی حصہ میں دھوپ نہ لگے،اور جب دونوں صورتوں کی نفی ہوگئی تو وہ زمین کے درمیانی حصہ میں قرار پایا‘ جیسے(ملک)شام کا زیتون کہ دن کے اول وآخر دونوں حصوں میں اسے دھوپ لگتی ہے،چنانچہ وہ بہت ہی عمدہ اور بہتر ہوتا ہے اور اس کا تیل انتہائی صاف ستھرا ہوتا ہے،اسی لئے فرمایا﴿يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ﴾خود ہی روشنی دینے لگے اگر چہ اسے آگ نہ بھی چھوئے،اور جب آگ بھی لگادی جائے تو وہ خوب خوب روشنی دے گا،﴿نُّورٌ عَلَىٰ
[1] دیکھئے:جامع البیان عن تاویل آی القرآن للطبری،19/188۔ [2] تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر،3/281،نیز دیکھئے:تفسیر البغوی،3/374۔