کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 37
فرمان باری﴿يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ﴾
اس کی تفسیر میں کئی اقوال ہیں:
1- مشرقی مغربی ہے ‘صبح میں آفتاب اسی پر طلوع ہوتا ہے اور اسی پرغروب ہوتا ہے،چنانچہ صبح و شام اس پر سورج کی حرارت پڑتی ہے اور یہ اس کی زینت کے لئے بہتر ہے۔
2- یہ درختوں کے درمیان ایک درخت ہے ‘ نہ مشرقی جانب ہے اور نہ ہی مغربی جانب۔
3- یہ ایک درخت ہے جو دنیا کے درختوں میں سے نہیں ہے۔
امام طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ان میں سے مناسب ترین قول ان لوگوں کا ہے جنھوں نے کہا ہے کہ یہ مشرقی مغربی ہے،نیز فرمایا کہ:اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ مشرقی نہیں ہے کہ اس پر سورج کی دھوپ صرف شام کے وقت پڑے صبح نہ پڑے،بلکہ سورج اس پر طلوع بھی ہوتا ہے اور غروب بھی،چنانچہ وہ مشرقی مغربی ہے‘‘[1]۔
فرمان باری﴿نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ يَهْدِي اللّٰهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَيَضْرِبُ اللّٰهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ(٣٥)﴾۔
آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ یہ قرآن کریم اللہ کی جانب سے نور ہے جسے اللہ نے اپنے بندوں کی طرف نازل فرمایا ہے جس سے وہ روشنی حاصل کرتے ہیں ‘﴿عَلَىٰ نُورٍ﴾’’نور پر‘‘ یعنی ان دلائل اور بیان کے بعد جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے قرآن کی آمد سے قبل بیان فرمائے تھے،جو اللہ کی وحدانیت کی حقیقت پر دلالت کناں ہیں،چنانچہ یہ ان کے لئے نزول قرآن سے قبل اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ بیان اور نور پر اللہ کی جانب سے مزید(دوہری)روشنی اور بیان ہے،اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنے نور کی اتباع کے توفیق عطا فرماتا ہے اور لوگوں کے لئے مثالیں اور تشبیہات بیان کرتا ہے جیسا کہ اللہ نے ان
[1] دیکھئے:جامع البیان عن تاویل آی القرآن،19/187،نیز دیکھئے:الجامع لاحکام القرآن للقرطبی،11/261،وتفسیر البغوی،3/374،وتفسیر القرآن العظیم لابن کثیر،3/281،واجتماع الجیوش الاسلامیہ علی غزو المعطلۃ والجھمیہ،2/51،و تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان للسعدی،ص 517۔