کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 36
2- ’’مشکاۃ‘‘ مومن کا سینہ ہے اور چراغ قرآن کریم اور ایمان ہے،اور شیشہ مومن کا دل ہے۔ 3- یہ مومن کی مثال ہے،البتہ چراغ اور جو کچھ ا س میں ہے وہ مومن کے دل کی مثال ہے اور مشکاۃ(طاق)اس کے پیٹ کے مثال ہے اور ’’نور پر نور‘‘ سے مراد اس کا ایمان وعمل ہے۔ 4- یہ مومن کے دل میں قرآن کی مثال ہے۔ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے یہ اختیار کیا ہے کہ’’ ان(مذکورہ)اقوال میں سے درستگی سے قریب ترین قول ان لوگوں کا ہے جنھوں نے یہ کہا ہے کہ یہ قرآن پر ایمان لانے والوں کے دلوں میں قرآن کی مثال ہے،چنانچہ فرمایا کہ:مومنوں کے دلوں میں اللہ کے نور کی مثال جس کے ذریعہ اس نے اپنے بندوں کے لئے ان کی طرف نازل کردہ ہدایت کا راستہ روشن کیا اور وہ اس پر ایمان لائے اور اس میں نازل کردہ باتوں کی تصدیق کی،طاق کی مانند ہے،اور مشکاۃ(طاق)بتّی میں ہونے والی شیشہ کی ستون ہے،کیونکہ وہ دیواروں میں ہونے والے اس طاق کے مشابہ ہوتا ہے جس میں کوئی راستہ نہیں ہوتا اور اس ستون کو ’’طاق‘‘ محض اس لئے قرار دیا ہے کہ اس میں کوئی راستہ نہیں ہوتا،وہ اندر سے خالی اور اوپر سے کھلا ہوتا ہے چنانچہ وہ دیوار میں ہونے والے اس طاق کی مانند ہے جس میں راستہ نہیں ہوتا۔ فرمان باری تعالیٰ﴿فِيهَا مِصْبَاحٌ﴾میں مصباح کے معنیٰ چراغ کے ہیں اور چراغ کو مثال کے طور پر اس لئے بیان کیا ہے کہ مومن کے دل میں قرآن اور روشن آیات ہوا کرتی ہیں۔ فرمان باری﴿الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ﴾یعنی جس طاق میں چراغ ہے وہ طاق شیشہ کی قندیل میں ہے،وہ قرآن کے مثل ہے،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ قرآن جو مومن کے دل میں ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے بندہ کے دل کو منور کیا ہے وہ سینہ میں ہے،پھر اللہ عزوجل نے اللہ کے ساتھ کفر اور شک سے پاک وصاف ہونے‘ نور قرآنی اور اپنے رب کی روشن آیات سے منور ہونے اور ان آیات سے نصیحت وموعظت حاصل کرنے میں سینہ کو روشن ستارے کے مانند قرار دیا ہے،چنانچہ فرمایا﴿الزُّجَاجَةُ﴾شیشہ کی قندیل،یہ مومن کا سینہ ہے جس میں اس کادل ہوتا ہے گویا کہ وہ روشن چمکتے ستارے کے مانند ہے‘‘[1]۔
[1] دیکھئے:جامع البیان عن تاویل آی القرآن،9 1/184،قدرے تصرف کے ساتھ۔