کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 35
اور فرمان باری تعالیٰ:﴿مَثَلُ نُورِهِ﴾میں ’’ہ‘‘ ضمیر کی تفسیر میں کئی باتیں کہی گئی ہیں:
1- اللہ کے نور کی مثال:یعنی مومن کے د ل میں اللہ کی ہدایت کی مثال۔
2- مومن کے نور‘ جو اس کے دل میں قرآن اور ایمان کی شکل میں ہے اس کی مثال۔
3- محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی مثال۔
4- قرآن کریم کے نور کی مثال[1]۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’صحیح بات یہ ہے کہ ضمیر ’’ھائ‘‘ اللہ عزوجل کی طرف لوٹتی ہے‘ اور معنیٰ ہے بندہ کے دل میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نور کی مثال،اور اللہ کے بندوں میں سے اس کے نورکے سب سے عظیم حصہ اور نصیبہ والے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،چنانچہ اس صورت میں ضمیر ’’ھائ‘‘ مذکور یعنی صدر کلام کی طرف لوٹنے کے ساتھ ساتھ(سابقہ)تینوں تقدیرات کو شامل ہے اور یہ تفسیر لفظی و معنوی دونوں طور پر مکمل ہے،اس نور کی اضافت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی جانب کی جائے گی کیونکہ وہ نور کا محل ہے اورمومن کی طرف کی جائے گی کیونکہ وہ اسے قبول کرنے والا ہے،چنانچہ نور کی نسبت اس کے عطا کرنے اور قبول کرنے والے دونوں کی طرف کی جائے گی،اس نورکے دینے والے‘ قبول کرنے والے‘ اس کا محل‘ اس پر آمادہ کرنے والے اور مادہ سب ہیں،اور آیت کریمہ تفصیلی طور پر ان تما م چیزوں کے بیان پر مشتمل ہے،چنانچہ فاعل اللہ تعالیٰ ہے جو انوار لٹانے والا اور جسے چاہے اپنے نور کی طرف رہنمائی کرنے والا ہے،اور قبول کرنے والا بندۂ مومن ہے،قبولیت کا محل اس کا دل ہے،اس پر آمادہ کرنے والی شے اس کی ہمت اور عزم وارادہ ہے،اور مادہ بندہ کا قول وعمل ہے‘‘[2]۔
ارشادباری﴿كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ ۖ﴾کی تفسیر میں کئی اقوال ہیں:
1- ’’مشکاۃ‘‘ ہر اس طاق کو کہتے ہیں جس میں شگاف(راستہ)نہ ہو،یہ مثال اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بیان فرمائی ہے،چراغ آپ کا دل ہے اور شیشہ کی قندیل آپ کا سینہ ٔ مبارک ہے۔
[1] دیکھئے:جامع البیان عن تاویل آی القرآن للطبری،19/178،179،تفسیر البغوی،3/345،والجامع لاحکام القرآن للقرطبی،11/261،وتفسیر القرآن العظیم لابن کثیر،3/280۔
[2] اجتماع الجیوش الاسلامیہ علی غزو المعطلۃ والجھمیہ،2/49،50۔