کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 34
کرکے کشادہ کردیتا ہے،واللہ اعلم [1]۔ نیز اللہ کی طرف رات کا عمل اس(رات)کے بعد آنے والے دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل اس(دن)کے بعد آنے والی رات کے عمل سے پہلے اٹھایا(پیش کیا)جاتا ہے،کیونکہ نگراں فرشتے رات ختم ہونے کے بعد اس(رات)کے اعمال لیکردن کے شروع میں(آسمان کی طرف)چڑھتے ہیں اور دن ختم ہونے کے بعد اس کے اعمال لیکر رات کے شروع میں چڑھتے ہیں،واللہ اعلم[2]۔ اور اللہ تعالیٰ کا حجاب نور ہے،یعنی وہ حجاب جو اللہ تعالیٰ کے دیدار کے درمیان حائل اور اسے ڈھانپے ہوئے ہے ‘ وہ نور ہے اور اس کے چہرے کی چمک اس کا نور وجلال ہے،اگر اللہ تعالیٰ نور کے نام سے موسوم اس حجاب کو ہٹا دے اور اپنی مخلوق کے سامنے جلوہ افروز ہو جائے تو اس کے چہرے کی چمک اور تاباں کرنیں اس کی ساری مخلوق کو جلا کر رکھ دیں گی،کیونکہ اس کی نگاہ تمام کائنات کو محیط ہے[3]۔ 3- ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:کیاآپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟آپ نے فرمایا:’’نور أنی أراہ‘‘ وہ ایک نور تھا‘ میں اسے کہاں دیکھ سکتا ہوں!! اور ایک روایت میں ہے:’’رأیت نوراً‘‘میں نے محض نور دیکھاہے[4]۔ معنیٰ یہ ہے کہ اس کا حجاب نور ہے تو اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں [5]۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ انھوں نے فرمایا:اس حدیث کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ نور تھا ‘ یا اللہ عزوجل کے دیدار کے درمیان نور حائل ہوگیا تو میں اسے کیسے دیکھ سکتاہوں‘‘[6]۔
[1] دیکھئے:شرح النووی علی صحیح مسلم،3/16۔ [2] دیکھئے:حوالہ سابق،3/17۔ [3] دیکھئے:حوالہ سابق،3/17۔ [4] صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب قولہ صلي الله عليه وسلم:’’نورأنی أراہ‘‘1/161،حدیث(178)۔ [5] شرح النووی علی صحیح مسلم،3/15۔ [6] اجتماع الجیوش الاسلامیہ علی غزو المعطلۃ والجھمیہ،2/47۔