کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 33
نور ہے‘ اور تیرے ہی لئے تمام تیریفیں ہیں‘ تو آسمانوں ‘ زمین اور ان کے درمیان کی مخلوقات کا سنبھالنے والا ہے حدیث طویل ہے۔ 2- ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان پانچ باتیں ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے‘ اور فرمایا: ’’إن اللّٰه عز وجل لا ینام ولا ینبغي لہ أن ینام،یخفض القسط ویرفعہ،یرفع إلیہ عمل اللیل قبل عمل النھار،وعمل النھار قبل عمل اللیل،حجابہ النور،لو کشفہ لأحرقت سبحات وجھہ ما انتھی إلیہ بصرہ من خلقہ‘‘[1]۔ بیشک اللہ عزوجل نہیں سوتا ‘ اور نہ ہی سونا اس کے شایان شان ہی ہے‘ وہ میزان عدل کو پست وبلند کرتا ہے‘ اس کی طرف رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے بلند کیا جاتا ہے‘ اس کا حجاب نور ہے‘ اگر وہ اسے کھول دے تو اس کے چہرے کی ضوفشانیاں اس کی منتہائے نگاہ تک کی ساری مخلوقات کو جلا کر رکھ دیں گی۔ چنانچہ اللہ عزوجل کو نیند نہیں آتی ہے ‘ وہ اس سے منزہ اور پاک ہے،ارشاد باری ہے: ﴿اللّٰهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ﴾[2]۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود حقیقی نہیں‘ وہ زندہ ‘ تھامنے والا ہے،اسے نہ تو اونگھ آتی ہے اور نہ ہی نیند۔ ’’ سِنَةٌ ‘‘ کے معنیٰ اونگھ کے ہیں‘ وہ(اللہ)عزوجل میزان کو جھکاتا اور بلند کرتا رہتا ہے‘ اور(حدیث میں)میزان کو ’’قسط‘‘ یعنی انصاف اس لئے کہا گیا ہے کہ ’’قسط‘‘ کے معنیٰ عدل وانصاف کے ہیں اور میزان سے ہی انصاف قائم ہو تا ہے،مقصود یہ ہے کہ میزان میں جو بندوں کے بلنداعمال اور پست روزیاں وزن کی جاتی ہیں(ان کے سمیت)اللہ تعالیٰ میزان کو بلند اور پست کرتا رہتا ہے،اور کہا گیا ہے کہ ’’قسط‘‘ سے مراد وہ روزی ہے جو ہر مخلوق کا حصہ ہے اللہ تعالیٰ اسے پست کرکے کم کردیتا ہے اور بلند
[1] صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب قولہ صلي الله عليه وسلم:’’ان اللّٰه لا ینام‘‘ 1/162،حدیث(179)۔ [2] سورۃ البقرہ:255۔