کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 32
نہ ہوتا تو تہ بہ تہ تاریکیاں ہوتیں‘ اور اسی لئے ہر وہ جگہ جہاں اللہ کے نور کا فقدان ہے وہاں تیرگی وتاریکی چھائی ہوئی ہے‘‘[1]۔
اللہ عزوجل کی طرف نور کی نسبت دو طرح سے کی جاتی ہے:
ایک صفت کی نسبت موصوف کی طرف اور دوسرے مفعول کی اضافت فاعل کی طرف۔
پہلے کی مثال جیسے اللہ عزوجل کا فرمان:
﴿وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا﴾[2]۔
اور زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہوجائے گی۔
چنانچہ اللہ کے نور سے زمین کی یہ روشنی قیامت کے روز ہوگی جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ فیصلہ فرمانے کے لئے جلوہ افروز ہوگا[3]۔
اللہ تعالیٰ کے لئے نور کی صفت اور فعل کے اثبات نیز یہ کہ اللہ عزوجل آسمانوں ‘ زمین اور ان کے درمیان کی مخلوقات کا نور اور انہیں نورانیت عطاکرنے والا ہے‘ کے سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد حدیثیں ثابت ہیں:
1- عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں تہجد کے لئے بیدار ہوتے تو فرماتے:
’’اللھم لک الحمد أنت نور السماوات والأرض ومن فیھن،ولک الحمد أنت قیم السماوات والأرض ومن فیھن ‘‘ الحدیث [4]۔
اے اللہ ! تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں‘ تو آسمانوں ‘ زمین اور ان کے درمیان کی تمام مخلوقات کا
[1] تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان للسعدی،ص 517۔
[2] سورۃ الزمر:69۔
[3] دیکھئے:اجتماع الجیوش الاسلامیہ علی غزو المعطلۃ والجھمیۃ،2/45۔
[4] متفق علیہ:صحیح بخاری،کتاب التہجد،باب التہجد باللیل،1/532،حدیث(1120)،ومسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب الدعاء فی صلاۃ اللیل وقیامہ،حدیث(769)۔