کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 31
1- اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین والوں کا ہدایت دہندہ ہے۔ 2- اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین یعنی ان میں موجود ستاروں‘ سورج اور چاند(وغیرہ)کے معاملات کی تدبیر کرنے والا ہے،لہٰذا اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا روشن کرنے والا ہے۔ 3- اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی روشنی ہے[1]۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’حقیقی بات یہ ہے کہ ان تمام حیثیتوں سے اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے‘‘[2]۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین والوں کو ہدایت دینے والا ہے،وہ اللہ کے نور ہی کے سبب حق کی راہ پاتے ہیں اور اس کی ہدایت کے ذریعہ گمراہی سے نجات پاتے ہیں،وہ(اللہ)سبحانہ وتعالیٰ آسمانوں اور زمین کو نورانیت عطاکرنے والا اور ان میں موجود ستاروں‘ سورج اور چاند کے ذریعہ معاملہ کی تدبیر کرنے والا ہے،وہ بذات خود نور ہے،اس نے اپنی ذات کو نور کے نام سے موسوم کیا ہے اور اپنی کتاب(قرآن کریم)‘ اپنے رسول(محمد صلی اللہ علیہ وسلم)اور اپنے دین(اسلام)کو نور قرار دیاہے‘ اور نور ہی کے حجاب سے اپنے بندوں سے اوٹ میں ہے نیز اپنے اولیاء ومحبوب بندوں کی رہائش گاہوں کو چمکتا ہوا نور بنایا ہے[3]۔ علامہ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمیں کا حسی ومعنوی طور پر نور ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ بذات خود نور ہے اور اس کا حجاب(بھی)ایسا نور ہے کہ اگر وہ اسے کھول دے تو اس کی چہرے کی ضیابار کرنیں اس کی منتہائے نگاہ تک کی ساری مخلوقات کو جلا کر خاکستر کردیں گی‘ اسی(اللہ کے نور)کی بدولت عرش وکرسی‘ آفتاب وماہتاب اور روشنی کو نور عطا ہوا ہے اور اسی سے جنت کو روشنی ملی ہے،اسی طرح معنوی نور کا مصدر ومنبع بھی اللہ عزوجل ہی کی ذات ہے،چنانچہ اس کی کتاب نور ہے،اس کی شریعت نور ہے،اس کے رسولوں اور مومن بندوں کے دلوں میں ایمان ومعرفت نور ہے‘ کیونکہ اگر اللہ عزوجل کا نور
[1] جامع البیان عن تاویل آی القرآن للطبری،19/177،وتفسیر البغوی،3/345،والجامع لاحکام القرآن للقرطبی،11/258،وتفسیر القرآن العظیم لابن کثیر،3/280،واجتماع الجیوش الاسلامیہ لابن القیم،2/44۔ [2] اجتماع الجیوش الاسلامیہ علی غزو المعطلۃ والجھمیۃ لابن القیم،2/46۔ [3] دیکھئے:حوالہ سابق،2/44۔