کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 28
وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ تعالیٰ انکاری ہے مگر اسی بات کا کہ اپنا نور پورا کرے گو کافر ناخوش رہیں۔
اللہ عزوجل نے بیان فرمایا کہ یہود ونصاریٰ اور ان کے ساتھ جو مشرکین ہیں ’’وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں‘‘اور اللہ کا نور اس کا وہ دین ہے جسے اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکر مبعوث فرمایا ہے اور اللہ نے اسے ’’نور‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے کیونکہ جہالت اور باطل ادیان ومذاہب کی تاریکیوں میں اس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے،کیونکہ وہ(اسلام)حق کے علم و معرفت اور اس پر عمل کا نام ہے اور اس نور میں اللہ کی توحید پر دلالت کناں دلائل بھی داخل ہیں،کیونکہ دلائل وبراہین بھی نور ہیں اس لئے کہ ان میں بیان ووضاحت پائی جاتی ہے،چنانچہ یہ یہود ونصاریٰ اور ان کے ہم پیالے وہم نوالے مشرکین چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو محض اپنے باطل اقوال‘ بحث ومباحثہ اور افترا پردازی کے ذریعہ گل کردیں،ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی آفتاب کی ضیابار کرنوں یا مہتاب کی روشنی کو اپنی پھونک سے بجھانا چاہے،جس کی کوئی صورت ہی نہیں،نہ تو انہیں اپنا مقصود حاصل ہوا اور نہ ہی ان کی عقلیں ناکارگی اور بودے پن سے ہی محفوظ رہیں[1]۔
ارشاد باری ہے:
﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ وَهُوَ يُدْعَىٰ إِلَى الْإِسْلَامِ ۚ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ(٧)يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللّٰهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ(٨)﴾[2]۔
اس شخص سے زیادہ ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ(افتراء)باندھے حالانکہ وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے اور اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا
[1] دیکھئے:جامع البیان عن تاویل آی القرآن،14/231،214،والجامع لاحکام القرآن للقرطبی،8/614،وتفسیر القرآن العظیم لابن کثیر،2/334،وتیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان للسعدی،ص 295،797۔
[2] سورۃ الصف:7،8۔