کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 27
ہدایت کی روح کے فقدان‘ اللہ کی توحید اور اس کے دین کے احکام سے لاعلمی اور اللہ کے لئے ان چیزوں پر عمل نہ کرنے کے سبب جو اس کی نجات کا ضامن ہو‘ مردہ دل تھا،تو اللہ تعالیٰ نے جس روح کے ذریعہ اس کے جسم کو زندہ کیا ہے اسکے علاوہ ایک(دوسری)روح کے ذریعہ اسے زندگی عطا فرمائی‘اور وہ اسے اسلام کی ہدایت‘ اللہ اور اس کی توحید‘ اسکی محبت اور بغیرساجھی و شریک کے تنہا اس کی عبادت کی معرفت کی روح ہے،نیز اسے ایک نور عطافرمایا جسے لیکر وہ لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہے وہ قرآن اور اسلام کا نور ہے،تو کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو جہالت‘ کفر‘ شرک‘ شک‘ گمراہی واعراض اور نافرمانیوں کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں ڈوبا ہواہو،اس سے نکل ہی نہ پاتا ہو‘ اس پر راستے گڈمڈ اور ہدایت کی راہیں اوجھل ہوگئی ہوں،اور نتیجۃً وہ غم وفکر‘ حزن وملال اور بدبختی سے دوچار ہو؟؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے عقلوں کو ان چیزوں کی تنبیہ فرمائی ہے جن کا انہیں علم وادراک ہوسکتا ہو،وہ یہ کہ دونوں(قسموں کے لوگ)اسی طرح کبھی برابر نہیں ہوسکتے جس طرح لیل ونہار‘ روشنی وتاریکی اور زندے و مردے برابر نہیں ہوسکتے،گویا یہ کہا جارہا ہے کہ(ایسی صورت میں)کوئی معمولی عقل والا بھی ایسی حالت میں رہنے اور تاریکیوں میں یونہی حیران وپریشان بھٹکنے پر کیسے آمادہ ہوتاہے ؟ پھر اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:﴿زُیِّنَ لِلْکَافِرِیْنَ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْن﴾یعنیکا فروں کو ان کے اعمال خوشنما معلوم ہوا کرتے ہیں،چنانچہ شیطان ہمیشہ ان کے اعمال کو ان کے دلوں میں مزین وآراستہ کرتا رہا یہاں تک کہ انھوں نے اسے اچھا اور حق سمجھا،نتیجہ یہ نکلا کہ یہ چیز ان کے دلوں میں عقیدہ اور پختہ لازمی وصف کی شکل اختیار کر گئی[1]۔ (8)ارشاد باری ہے: ﴿يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُوا نُورَ اللّٰهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللّٰهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ(٣٢)﴾[2]۔
[1] دیکھئے:جامع البیان عن تاویل آی القرآن للطبری،12/88،ومدارج السالکین لابن القیم،3/258،وتفسیر القرآن العظیم لابن کثیر،2/163وتیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان للسعدی،ص 234۔ [2] سورۃ التوبہ:32۔