کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 26
میں علماء کرام کا اختلاف ہے‘ سدی‘ قتادہ اور جمہور مفسرین فرماتے ہیں کہ اس سے مراد رات کی تاریکی اور دن کی روشنی ہے،جبکہ حسن فرماتے ہیں کہ اس سے مراد کفروایمان ہے،میں(قرطبی)کہتا ہوں کہ لفظ دونوں معانی کو شامل ہے‘‘[1]۔
علامہ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اللہ عزوجل نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر اپنی ذات کی حمد وثنا فرمائی ہے جو کہ اس کی کمال قدرت‘ وسیع علم و رحمت‘ اسکی عام حکمت‘ تخلیق وتدبیر میں اس کی انفرادیت اور نور وظلمات کی تخلیق پر دلالت کرتے ہیں،اور یہ(نور وظلمت)ظاہری وحسی جیسے رات ودن‘ آفتاب وماہتاب‘ اورمعنوی جیسے جہالت‘ شک‘ شرک‘نافرمانی اور غفلت کی تاریکیوں نیز علم‘ ایمان‘ یقین اور اطاعت کی روشنی(دونوں)کو شامل ہے،یہ ساری چیزیں اس بات پر قطعی دلالت کناں ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی عبادت اوراس کے لئے دین کو خالص کئے جانے کا مستحق ہے‘‘[2]۔
(7)اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿أَوَ مَنْ کَانَ مَیْتاً فَأَحْیَیْنَاہُ وَجَعَلْنَا لَہُ نُوْراً یَّمْشِي بِہِ فِي النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہُ فِي الظُّلُمَاتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْھَا کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکَافِرِیْنَ مَاکَانُوْا یَعْمَلُونَ﴾[3]۔
کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا،پھر ہم نے اس کو زندہ کر دیا اور ہم نے اسے ایک ایسا نور دے دیا کہ وہ اس کو لئے ہوئے آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے،کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں سے نکل ہی نہیں پاتا،اسی طرح کا فروں کو ان کے اعمال خوشنما معلوم ہوا کرتے ہیں۔
یہ ایک مثال ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس مومن کے لئے بیان فرمائی ہے جو مردہ یعنی ضلالت وگمراہی میں حیران وپریشان تھا تو اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ذریعہ اس کے دل میں زندگی کی روح پھونکی اور اسے اپنی ہدایت عطافرمائی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وتباع کی توفیق بخشی[4]،چنانچہ یہ مومن علم وایمان اور
[1] الجامع لاحکام القرآن،6/361۔
[2] تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان للسعدی،ص 212۔
[3] سورۃ الانعام:122۔
[4] دیکھئے:تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر،2/163۔