کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 232
6- اگر وہ اسی(کفر)کی حالت میں مرجائے تووہ اللہ کی لعنت‘ اس کی رحمت سے دوری اور جہنم میں ہمیشہ ہمیش کی زندگی کا مستحق ہوگا۔
یہ خطرناک احکام اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ جوشخص مسلمانوں میں سے کسی پر کفر کا حکم لگانا چا ہتاہو وہ حکم لگانے سے پہلے بارہا خوب غور وفکر کر لے [1]۔
7- اس شخص کے لئے نہ دعا ئے رحمت کی جائے گی اور نہ ہی استغفار کیا جائے گا،کیونکہ اللہ عزوجل کاارشادہے:
﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ(١١٣)﴾[2]۔
نبی اور دوسرے مسلمانوں کے لئے جائز نہیں کہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا مانگیں اگر چہ وہ رشتہ دار ہی ہوں‘ اس امر کے ظاہر ہوجانے کے بعد کہ یہ لوگ جہنمی ہیں۔
شیخ عبد الرحمن بن ناصر سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’کفر(کا حکم لگانا)اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے لہٰذا کافر وہی ہے جسے اللہ اور اس کے رسول کافر قرار دیں‘‘[3]۔
چوتھا مسلک:تکفیر کے اصول:
اولاً:کفارکی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم:وہ کفار جو سرے سے دین اسلام میں داخل ہی نہیں ہوئے اور نہ ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے،جیسے اُمّی(ان پڑھ لوگ)‘ مشرکین‘ اہل کتاب(یہود ونصاریٰ)‘ مجوسی(آتش پرست)‘ بت پرست‘ دہریہ اور فلاسفہ اور ان کے علاوہ دیگر کفار،ان تمام لوگوں کے کفر‘ بدبختی‘ ان کے ہمیشہ ہمیش کے لئے جہنم میں
[1] دیکھئے:فتاویٰ دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات،6/49،میں نے یہ تمام مسائل عالی جناب شیخ صالح فوزان الفوزن حفظہ اللہ کو مورخہ 20/6/1417ھ کو پڑھ کر سنائے،تو انہوں نے موافقت فرمائی‘ اللہ انہیں جزائے خیر سے نوازے۔
[2] سورۃ التوبہ:113۔
[3] ارشاد اولی البصائر والالباب لنیل الفقہ باقرب الطرق وایسر الاسباب،للسعدی رحمہ اللّٰه،ص191 تا 193۔