کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 229
یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ ایمان لاکر پھر کافر ہوگئے لہٰذا ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی‘ تو وہ سمجھتے نہیں۔ ثانیاً:کفر اصغر جو دین اسلام سے خارج نہیں کرتا،اور یہ نعمت کا کفر ہے: اس کی دلیل اللہ عزوجل کایہ ارشاد ہے: ﴿وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللّٰهِ فَأَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ(١١٢)[1]۔ اللہ تعالیٰ اس بستی کی مثال بیان فرما رہا ہے جو پورے امن واطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس بافراغت ہرجگہ سے چلی آرہی تھی‘ پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفر(ناشکری)کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزا چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا۔واللّٰه المستعان[2]۔ سنت نبوی کی جن دلیلوں سے اس کفر(کفر اصغر)کا پتہ چلتا ہے جو دین اسلام سے خارج نہیں کرتا،ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا درج ذیل فرمان بھی ہے: ’’سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر‘‘[3]۔ مسلمان کو برا بھلا کہنا فسق اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔ نیز یہ فرمان: ’’إذا قال الرجل لأخیہ یا کافر فقد باء بھا أحدھما‘‘[4]۔ جب آدمی اپنے(دینی)بھائی کو کہہ دے ’’اے کافر‘‘ تو ان دونوں میں کوئی ایک ضرور اس کا مستحق ہوجاتا ہے۔
[1] سورۃ النحل:112۔ [2] مجموعہ توحید،از شیخ الاسلام ابن تیمیہ و شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہما اللّٰه،ص6۔ [3] متفق علیہ بروایت عبد اللّٰه بن مسعود رضی اللّٰه عنہ:صحیح بخاری،کتاب الادب،با ب ما ینھی عنہ من السباب واللعن،7/110،حدیث(6044)،صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب قول النبی صلي الله عليه وسلم:’’سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر‘‘ 1/81،حدیث(64)۔ [4] متفق علیہ بروایت عبد اللّٰه بن عمر رضی اللّٰه عنہما:صحیح بخاری،کتاب الادب،باب من أکفر اخاہ بغیر تأویل فھو کما قال،7/126،حدیث(6104)،صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب بیان حال من قال لاخیہ المسلم یا کافر،1/79،حدیث(60)۔