کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 221
بارے میں تفصیلی گفتگو فرمائی ہے۔ سماحۃ الشیخ امام عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ سے فیصلہ کرے وہ(درج ذیل)چار قسموں میں کسی ایک قسم میں ہوگا: 1- جو یہ کہے کہ میں اس(اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ)سے فیصلہ اس لئے کرتاہوں کہ وہ شریعت اسلامیہ سے افضل ہے،تو ایسا شخص کفر اکبر کا مرتکب ہے۔ 2- جو یہ کہے کہ میں اس سے فیصلہ اس لئے کرتاہوں کہ وہ شریعت اسلامیہ ہی کی طرح ہے،لہٰذا اس سے بھی فیصلہ کرنا جائز ہے اور شریعت اسلامیہ سے بھی،‘ تو ایسا شخص بھی کفر اکبر کا مرتکب ہے۔ 3- جو یہ کہے کہ میں اس سے فیصلہ کرتاہوں‘ اور شریعت اسلامیہ کے ذریعہ فیصلہ کرناافضل ہے لیکن اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ سے فیصلہ کرنا بھی جائز ہے،تو ایسا شخص بھی کفر اکبر کا مرتکب ہے۔ 4- جو یہ کہے کہ میں اس سے فیصلہ کرتا ہوں،حالانکہ اس کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ سے فیصلہ کرنا جائز نہیں،اور وہ یہ کہے کہ شریعت اسلامیہ کے ذریعہ فیصلہ کرنا ہی افضل ہے اس کے علاوہ سے فیصلہ کرنا جائز نہیں‘ لیکن وہ متساہل(کوتاہی کرنے والا)ہے یا ایسا اپنے حاکموں کے حکم کی تعمیل میں کررہاہے تو ایسا شخص کفر اصغر(چھوٹے کفر)کا مرتکب ہے جو اسے دین اسلام سے خارج نہیں کرتا،لیکن اسے سب سے بڑے گناہوں میں سے ایک کبیرہ گناہ سمجھا جائے گا‘‘[1]۔ عمل کو فسق یا اس کے مرتکب کو فاسق کا نام دینے میں اور اسے مسلمان کانام دیکر اس پر مسلمانوں کے احکام جاری کئے جانے میں کوئی تعارض نہیں ہے،کیونکہ ہر فسق کفر نہیں ہوتا اور نہ ہی کفروظلم کے نام سے موسوم کیاجانے والا ہر عمل دین اسلام سے خارج کرنے والا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کے لازم و ملزوم میں غور کرلیا جائے‘ یہ اس لئے کہ کفر‘ شرک‘ ظلم‘ فسق اور نفاق وغیرہ کے الفاظ شرعی نصوص میں دو طرح وارد ہوئے ہیں:
[1] یہ بات شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ نے بیان فرمائی ہے جو میری پرسنل لائبریری میں موجود ایک کیسٹ میں رکارڈ ہے،نیز دیکھئے:فتاویٰ شیخ ابن باز،1/ 137،نیز اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ سے فیصلہ کرنا کب کفر اکبر ہوگا یہ جاننے کے لئے ڈاکٹر عبد العزیز آل عبد اللطیف کی کتاب ’’نواقض الایمان القولیہ والعملیہ‘‘ کا مطالعہ فرمائیں،ص 294 تا 343۔