کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 217
(ج)اسلام ہرزمانہ اور ہر دور کے مکلف جن وانس(جن پر شریعت کے احکام لاگو ہوتے ہیں)کے لئے عام ہے،اللہ عزوجل کاارشادہے: ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّٰهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا[1]۔ آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوارسول ہوں۔ (د)اسلام ثواب و عذاب کے اعتبار سے دنیوی جزا کے ساتھ اخروی جزاکا دین ہے۔ (ھ)اسلام لوگوں کو انسانی کمال کے اعلیٰ ترین معیار تک پہنچانے کا حریص ہے،اور یہ اسلام کا مثالی دین ہونا ہے‘(لیکن)ساتھ ہی اسلام انسانی طبیعت اور اس کی واقعی صورت حال کو بھی پس پشت نہیں ڈالتا،اوریہی اسلام کی واقعیت ہے۔ (و)اسلام اپنے عقائد‘ عبادات‘ اخلاق اورجملہ قوانین میں معتدل ہے،اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ﴿وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا[2]۔ اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط(معتدل ا مت)بنایا ہے۔ یہ اسلام کی بے مثال خصوصیات ہیں[3]۔ چوتھا مسلک:اسلام کے نواقض: اسلام کے نواقض(یعنی اسلام کو توڑنے والی چیزیں)بے شمار ہیں‘ علماء کرام نے مرتد کے حکم کے بیان میں ذکر کیا ہے کہ مسلمان کبھی کبھار دین اسلام کو توڑنے والی بہت سی چیزوں کے سبب دین اسلام سے مرتد ہوجاتا ہے جو اس کے خون اور مال کی حرمت کو ختم کردیتی ہیں،اور ان کے سبب وہ شخص دین اسلام سے خارج ہوجاتا ہے،ان میں سب سے زیادہ خطرناک اور سب سے زیادہ واقع ہونے والی(درج ذیل)دس چیزیں ہیں[4]:
[1] سورۃ الاعراف:158۔ [2] سورۃ البقرہ:143۔ [3] دیکھئے:الحکمۃ فی الدعوۃ الی اللّٰه،از مولف،ص117۔ [4] ان نواقض کے لئے رجوع کیجئے:مولفات امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ،پہلی قسم،عقیدہ اور اسلامی آداب،ص385،مجموعۃ التوحید،از شیخ الاسلام ابن تیمیہ وشیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہما اللّٰه،ص 27،28۔