کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 214
’’ضرب اللّٰه مثلاً صراطاً مستقیماً،وعلی جنبتي الصراط سوران فیھما أبواب مفتحۃ،وعلی الأبواب ستور مرخاۃ،وعلی باب الصراط داع یقول:یا أیھا الناس ادخلوا الصراط جمیعاً ولا تعوجوا،وداع یدعو من جوف الصراط فإذا أراد أحدکم فتح شيء من تلک الأبواب قال:ویلک لا تفتحہ فإنک إن فتحتہ تلجہ،والصراط الإسلام،والسوران حدود اللّٰه تعالی،والأبواب المفتحۃ محارم اللّٰه تعالی،وذلک الداعي علی رأس الصراط کتاب اللّٰه عزوجل،والداعي من فوق الصراط واعظ اللّٰه في قلب کل مسلم‘‘[1]۔ اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی ایک مثال بیان فرمائی ہے،اور صراط(راستہ)کے دونوں جانب دو دیواریں ہیں جن میں کھلے دروازے ہیں،اور دروازوں پر پردے لٹکے ہوئے ہیں،اور راستے کے دروازے پر ایک منادی آواز لگارہا ہے کہ اے لوگو! سب کے سب اس راستے میں داخل ہوجاؤ اور(دائیں بائیں)نہ مڑو،اور راستے کے بیچ سے بھی ایک منادی آواز لگارہا ہے،اور جب تم میں سے کوئی ان میں سے کسی دروازے کو کھولنا چاہتا ہے تو وہ کہتا ہے:تیری بربادی ہو! اسے نہ کھول،کیونکہ اگر تو اسے کھولے گا تو اس میں جا داخل ہوگا،(سنو!)راستہ اسلام ہے،دونوں دیواریں اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں‘کھلے ہوئے دروازے اللہ کے حرام کردہ امور ہیں،راستہ کے شروع میں موجود منادی اللہ کی کتاب ہے اور راستہ کے اوپر(بیٹھا)منادی ہر مسلمان کے دل میں اللہ کا واعظ ہے۔ اورسنن ترمذی میں اتنا اضافہ ہے: ﴿وَاللّٰهُ يَدْعُو إِلَىٰ دَارِ السَّلَامِ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ(٢٥)[2]۔
[1] مسند احمد،4/182،183،مستدرک حاکم،امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت فرمائی ہے،1/73،سنن ترمذی،کتاب الامثال،باب ماجاء فی مثل اللّٰه لعبادہ،5/144،حدیث(2859)،علامہ شیخ البانی نے اسے مشکاۃ المصابیح(1،67)میں صحیح قرار دیا ہے۔ [2] سورۃ یونس:25۔