کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 211
گنا سے لے کر سات سو گنا تک لکھا جاتا ہے،اور وہ جوبھی برائی کرتا ہے اسے اتنا(برائی کے برابر)ہی لکھاجاتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ سے ملاقات کرے۔ 11- صحیح اسلام کی بدولت تھوڑا عمل بھی زیادہ ہوجاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ جب ہتھیارسے لیس ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگاکہ:اے اللہ کے رسول!میں جہاد کروں یا اسلام لاؤں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:پہلے اسلام لاؤ پھر جہاد کرنا،چنانچہ وہ شخص اسلام لایا اور پھر جہاد کیا یہاں تک کہ قتل کردیاگیا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عمل قلیلاً وأجر کثیراً‘‘۔ اس نے عمل تو تھوڑا کیا لیکن زیادہ اجر سے نوازا گیا[1]۔ 12- ساری بھلائی اسلام ہی میں ہے،عرب و عجم میں جو بھی خیر وبھلائی ہے اسلام ہی کی بدولت ہے،حدیث میں ثابت ہے: ’’أیما أھل بیت من العرب أو العجم أراد اللّٰه بھم خیراً أدخل علیھم الإسلام‘‘[2]۔ عرب یا عجم(غیر عرب)کے جس گھرانے والوں کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ خیر کا ارادہ کرتا ہے اس میں اسلام داخل فرمادیتا ہے۔ 13- اسلام دنیا و آخرت میں ہرخیر وبرکت کا سبب ہے،انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إن اللّٰه لا یظلم مؤمناً حسنۃً،یعطی بھا في الدنیا ویجزی بھا في الآخرۃ،وأما الکافر فیُطعم بحسنات ما عمل بھا للّٰه في الدنیا،حتی إذا أفضی إلی الآخرۃ لم یکن لہ
[1] متفق علیہ بروایت براء رضی اللّٰه عنہ:صحیح بخاری،کتاب الجھادوالسیر،باب:عمل صالح قبل الجھاد،3/371،حدیث(2808)الفاظ صحیح بخاری ہی کے ہیں،صحیح مسلم،کتاب الامارہ،باب ثبوت الجنۃ للشھید،3/1509،حدیث(1900)۔ [2] مسند احمد،3/477،ومستدرک حاکم،نیز امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت فرمائی ہے،علامہ شیخ البانی نے اسے سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ(حدیث51)میں صحیح قرار دیا ہے۔