کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 21
کوئی چیز چاہتا ہے تو بلا کسی روک ٹوک اور معارض کے کر گزرتا ہے‘‘[1]۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے منافقوں کے لئے بیان کردہ آتش کی مثال ذکر کرنے کے بعد بڑی عمدہ گفتگو فرمائی ہے‘ چنانچہ رقمطراز ہیں:’’پھر(اللہ)نے پانی کی مثال کے ذریعہ ان کا حال بیان فرمایا‘ چنانچہ ’’اصحاب صیب‘‘ یعنی بارش والوں سے ان کی تشبیہ دی(صیب کے معنیٰ آسمان سے نازل ہونے والی بارش کے ہیں)جس میں تاریکیاں ‘ کڑک اور بجلی ہو،چنانچہ ان کی عقل و بصیرت کی کمزوری کے سبب قرآن کریم کی زجر آمیز آیتیں ‘ اس کے وعد وعید‘ اس کی دھمکیاں‘ اس کے اوامر و نواہی اور تیز قسم کی چیخوں کے مثل اس کا خطاب سخت ہو گیا،اس لئے ان کی حالت اس شخص کی سی ہے جو اس بارش سے دوچار ہو جس میں تاریکی‘ کڑک اور بجلی ہو،تو وہ اپنی کمزوری اور خوف کے سبب سخت قسم کی چیخ کے ڈر سے اپنی دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لے‘‘[2]۔
(3)ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ(٢٥٧)﴾[3]۔
اللہ تعالیٰ مومنوں کا ولی(دوست)ہے انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے‘ اور کافروں کے دوست طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر تاریکیوں کی طرف لاتے ہیں‘ یہ جہنمی لوگ ہیں جو اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ عز وجل مومنوں کا معاون ومدد گار ہے‘ اپنی نصرت وتوفیق کے ذریعہ ان کی دیکھ ریکھ کرتا ہے اور انہیں کفر‘ شرک اور ضلالت کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان ‘ توحید اور ہدایت کی روشنی کی
[1] تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان للسعدی،ص 27۔
[2] امثال القرآن،ص 18،نیز دیکھئے:اجتماع الجیوش الاسلامیہ علی غزو المعطلہ والجہمیہ،لابن القیم،2/68،اس میں بڑی مفید بات مذکور ہے۔
[3] سورۃ البقرہ:257۔