کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 205
کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:
’’أن تعبد اللّٰه کأنک تراہ فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک‘‘[1]۔
یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو‘ اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہوتو وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عربی زبان میں ’’احسان‘‘ کے معنیٰ عمل کو خوب اچھی طرح انجام دینے کے ہیں،اور شریعت کی اصطلاح میں احسان کی تعریف وہی ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں کی ہے:
’’أن تعبد اللّٰه کأنک تراہ فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک‘‘۔
یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو‘ اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہوتو وہ تو تمہیں(ضرور)دیکھ رہا ہے۔
مقصود یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’احسان‘‘ کی تفسیر ظاہر وباطن کو سنوارنے کے ذریعہ فرمائی ہے ‘ اور یہ کہ اللہ عزوجل کی قربت کا تصور کیا جائے،نیزیہ تصورکہ وہ اس طرح اللہ کے سامنے ہے گویا کہ اللہ اسے دیکھ رہاہے،اوریہ چیز آدمی میں اللہ کا خوف وخشیت پیدا کرتی ہے نیز عبادت کو بحسن وخوبی انجام دینے ‘ اور اس کے اتمام و تکمیل میں جدوجہد کے سبب اس میں اخلاص پیدا کرنے کا موجب ہے[2]،اور ’’احسان‘‘ کی اسی اہمیت کے سبب قرآن میں اس کا ذکر کئی جگہوں پر آیا ہے،کبھی ایمان کے ساتھ‘ کبھی اسلام کے ساتھ‘ کبھی تقویٰ کے ساتھ اور کبھی عمل کے ساتھ،چنانچہ ایمان کے ساتھ احسان کا ذکر اللہ کے درج ذیل فرمان میں ہے:
﴿لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوا وَّآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوا وَّأَحْسَنُوا وَاللّٰهُ يُحِبُّ
[1] اس حدیث کی تخریج ص(203)میں گزرچکی ہے۔
[2] جامع العلوم والحکم لابن رجب،1/126،ومعارج القبول،لحافظ الحکمی،2/611 و ثلاثۃ الاصول،از شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللّٰه(حاشیہ ابن القاسم کے ساتھ طبع شدہ)ص 62 و 65،مولف رحمہ اللہ نے ایمان کے جملہ ارکان اور احسان کے رکن کے لئے قرآن کریم سے ایک دلیل اور ہر رکن کے لئے سنت نبوی سے ایک ایک دلیل ذکر فرمائی ہے۔