کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 20
تاریکیوں سے مراد کفر وشرک(کی غلاظتیں)ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے متنبہ فرمایا ہے،اور ’’ رَعْدٌ ‘‘ بادل کی کڑک سے مراد وعیدں اور جہنم کا ذکر وغیرہ ہیں جن سے بندوں کو ڈرایا گیا ہے،اور ’’ بَرْقٌ ‘‘ بجلی سے مراد قرآن کریم میں بیان کردہ ہدایت و بیان‘ نیک وعدے اور جنت کا ذکر وغیرہ ہیں،چنانچہ منافقین قرآن کریم کی تلاوت کے وقت(اس کی طرف)دل کے میلان کے خوف سے اپنے کانوں کو بند کرلیا کرتے تھے،کیونکہ ایمان ان کے نزدیک کفر ہے اور کفرموت ہے،﴿يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ﴾یعنی اندیشہ ہے کہ بجلی ان کے دلوں کو روشن کردے[1]۔ علامہ سعدی رحمہ اللہ آیت کریمہ کی تفسیر ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:’’چنانچہ یہی منافقین کی حالت ہے کہ جب وہ قرآن‘ اس کے اوامر ونواہی‘ اس کے وعدے‘ اس کے منع کردہ امور‘ اور اس کی وعید سنتے ہیں تو اپنی انگلیوں کو اپنے کانوں میں ڈال لیتے ہیں اور اس کے امر ونہی اور وعد وعید سے اعراض کرتے ہیں،چنانچہ اسکی وعیدیں اسے خوف میں مبتلا کردیتی ہیں اور اس کے وعدے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں،لہٰذا وہ اس سے حسب الامکان حد درجہ اعراض کرتے ہیں،اور اسی طرح اسے ناپسند کرتے ہیں جس طرح بارش والا شخص بادل کی گرج سن کر موت کے ڈر سے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیتا ہے،بار ش والے کو تو بسا اوقات سلامتی حاصل ہو بھی جاتی ہے لیکن منافقین کے لئے سلامتی کہاں؟اللہ عزوجل اپنے علم وقدرت کے ذریعہ انہیں گھیرے میں لئے ہوئے ہے،وہ اس سے بچ سکتے ہیں اور نہ ہی اسے عاجز کرسکتے ہیں،بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے خلاف ان کے اعمال محفوظ کررہا ہے اور انہیں اس کا پورا پورا بدلہ دے گا،اور چونکہ وہ بہرے پن‘ گونگے پن اور معنوی اندھے پن سے دوچار ہیں اور ان کے لئے ایمان کی راہیں مسدود ہیں،اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَلَوْ شَاءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ﴾یعنی اگر اللہ چاہے تو ان کی حسی سماعت و بصارت چھین لے‘ اس سے انہیں دنیوی عقاب(سزا)سے ڈرانا اور تنبیہ کرنا مقصود ہے تاکہ وہ ڈریں اور اپنے بعض شر ونفاق سے اجتناب کریں﴿إِنَّ اللّٰهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے،لہٰذا کوئی بھی چیز اسے عاجز نہیں کر سکتی،اور اس کی قدرت کا عالم یہ ہے کہ جب وہ
[1] تفسیر البغوی،1/54۔