کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 197
بات سے فائدہ اٹھایا‘ کیونکہ اس نے آپ کو وہ چیزیں بتائیں جن کا آپ کو علم نہ تھا‘ اور آپ کو آپ کے بھولے ہوئے گناہ یاد دلا دیئے‘ اگر چہ آپ پر تہمت ہی کیوں نہ لگائی ہو‘ کیونکہ اگر آپ میں وہ عیب نہ بھی ہو تو دوسرا عیب ضرور ہوگا،لہٰذا آپ اپنے او پر اللہ کی نعمت یاد کریں کہ اس نے اس تہمت گر کو آپ کے عیوب سے مطلع نہ کیا‘ اور اگر آپ صبر کریں اور ثواب کی نیت کرلیں تو یہ تہمت آپ کے گناہوں کا کفارہ ہوگی‘آپ کو یہ بھی جاننا چاہئے کہ اس نادان نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اور اللہ کی ناراضگی سے دوچار ہوا ہے‘ لہٰذا آپ اس سے بہتر بن کر اس کے ساتھ عفو و در گزر کا معاملہ کریں اور اس کے لئے بخشش طلب کریں ‘ ارشاد باری ہے:
﴿أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ وَاللّٰهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ(٢٢)﴾[1]۔
کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہاری مغفرت فرمادے‘ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
(9)موت کی یاد اور قلت آرزو‘اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:
﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ(١٨٥)﴾[2]۔
ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تمہیں اپنا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا‘ پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے بے شک وہ کامیاب ہوگیا‘ اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔
نیز ارشاد ہے:
﴿وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللّٰهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ(٣٤)﴾[3]۔
کوئی بھی نہیں جانتا کہ کل کیا(کچھ)کرے گا؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا‘ بیشک
[1] سورۃ النور:22۔
[2] سورۃ آل عمران:185۔
[3] سورۃ لقمان:34۔