کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 196
بیشک اللہ عز وجل پوشیدہ‘ مالدار‘ تقویٰ شعار بندہ سے محبت کرتاہے۔ (8)لوگوں کی مذمت اور تعریف کی پروا نہ کرنا‘ کیونکہ اس سے نہ تو نقصان پہنچتا ہے نہ نفع‘ بلکہ ضروری ہے کہ اللہ کی مذمت کا خوف ہو اور اللہ کے فضل و احسان سے خوشی،اللہ عز وجل کا ارشاد ہے: ﴿قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ(٥٨)[1]۔ آپ کہہ دیجئے کہ بس لوگوں کو اللہ کے فضل و انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہئے‘ وہ اس چیز سے بدرجہا بہتر ہے جسے وہ جمع کررہے ہیں۔ لہٰذا اے اللہ کے بندے! مدح و ثنا کی محبت سے اس طرح بے رغبت ہو جاؤ جس طرح عشاقِ دنیا آخرت سے بے رغبت ہوتے ہیں‘ جب تمہیں یہ چیز حاصل ہو جائے گی تو تمہارے لئے اخلاص سہل ہو جائے گا[2]۔ مدح و ثنا کی محبت سے بے رغبتی کو اس چیز کا یقینی علم بھی آسان اور سہل بنا دیتا ہے کہ اللہ واحد کے سوا نہ کسی کی مدح وثنا کوئی نفع اور زینت عطاکرسکتی ہے اور نہ ہی کسی کی مذمت نقصان پہنچا سکتی اور عیب لگا سکتی ہے‘ لہٰذا اس کی مدح و ستائش سے بے رغبتی اختیار کرو جس کی تعریف زینت نہیں عطا کرسکتی‘ اور اس کی مذمت سے بے رغبت ہو جاؤ جس کی مذمت کوئی عیب نہیں لگا سکتی‘ اور اس ذات کی تعریف کے خواہش مند بنوجس کی تعریف میں ساری زینت ہے اور جس کی مذمت میں سارا عیب ہے لیکن صبر ویقین کے بغیر اس پر قدرت پانا ناممکن ہے‘ جس شخص کے پاس صبر و یقین نہیں اس کی مثال بلا کشتی سمندر میں سفر کرنے والے کی ہے[3]۔ اپنے مذمت گر کو دیکھو ‘ اگر وہ سچا اور آپ کا بہی خواہ ہے تو اس کی ہدایت و نصیحت قبول کرلو‘ کیونکہ اس نے تمہیں تمہارے عیوب ہدیہ کئے ہیں‘ اور اگر وہ جھوٹا ہے تو اس نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا اور آپ نے اس کی
[1] سورۃ یونس:58۔ [2] الفوائد،از ابن القیم،ص67۔ [3] دیکھئے:الفوائد،از ابن القیم،ص268۔