کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 194
(ھ)عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا:’’میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں‘ کیا تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام بھی منافقوں میں سے بتایا ہے؟ انھوں نے جواب دیا:نہیں،لیکن آپ کے بعد میں کسی اورکا تزکیہ نہیں کروں گا‘‘[1]۔
(و)ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا:’’اے اللہ! میں نفاق کے خشوع سے تیری پناہ چاہتا ہوں،دریافت کیا گیا:نفاق کا خشوع کیا ہے؟ تو فرمایا:تم دیکھو کہ جسم سے تو خشوع کا اظہار ہورہاہے مگر دل خشوع سے خالی ہے‘‘[2]۔
(ز)ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا:’’اگر مجھے یقین ہوجائے کہ اللہ نے میری ایک نماز قبول فرما لی ہے،تو یہ میرے نزدیک دنیا اور اس کی ساری نعمتوں سے بھی زیادہ محبوب ہے،اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ(٢٧)﴾[3]۔
بیشک اللہ عزوجل متقیوں ہی سے قبول فرماتا ہے‘‘[4]۔
(ک)عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں:’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک سو بیس انصاری صحابہ کو پایا‘ ان میں سے کسی سے بھی کوئی مسئلہ دریافت کیا جاتا تو ہر ایک یہی چاہتا کہ اس کا بھائی(مسئلہ بتاکر)اس کی طرف سے کفایت کردے[5]۔
(5)اللہ کی مذمت سے فرار‘ کیونکہ لوگوں کی مذمت سے فرار اختیار کرنا ریاکاری کے اسباب میں سے ہے ‘ لیکن عقل مند جانتا ہے کہ اللہ کی مذمت سے بچنا زیادہ ضروری ہے،کیونکہ اللہ کی مذمت عیب کی چیز ہے‘ جیسا کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:’’ اے اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)میری تعریف باعث زینت
[1] ابن کثیر نے اس سے ملتے جلتے الفاظ میں البدایۃ والنھایۃ میں ذکر کیا ہے 5/19،نیز دیکھئے:صفات المنافقین از ابن القیم،ص36۔
[2] اسے امام ابن القیم نے صفات المنافقین میں ذکر کیا ہے،ص36۔
[3] سورۃ المائدہ:27۔
[4] اسے امام ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ذکر فرمایا ہے،2/41،اور ابن ابی حاتم کی طرف منسوب کیا ہے۔
[5] سنن دارمی 1/53،کتاب الزھد از ابن المبارک1/140،حدیث نمبر:(49)۔