کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 19
یہ ایک دوسری مثال ہے جسے اللہ تعالیٰ نے منافقین کے لئے بیان فرمائی ہے،مفہوم یہ ہے کہ اگر آپ چاہیں تو آگ روشن کرنے والے سے ان کی تشبیہ دیں اور چاہیں تو ’’اہل صیب‘‘ یعنی بارش والوں سے ان کی تشبیہ دیں۔
’’صیب‘‘ کے معنیٰ آسمان سے نازل ہونے والی بارش کے ہیں،نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ(آیت کریمہ کی ابتدا میں)’’ أَوْ ‘‘(یا)بمعنیٰ واؤ یعنی اور کے ہیں‘ مقصود یہ ہے کہ(آگ روشن کرنے والے)اور بارش(دونوں)سے ان کی تشبیہ دیں،﴿فِيهِ ظُلُمَاتٌ﴾(جس میں تاریکیاں ہوں)یعنی شب کی تاریکی‘ بدلی کی تاریکی اور بارش کی تاریکی‘﴿وَرَعْدٌ﴾(گرج)بادل سے سنائی دینے والی آواز کو کہتے ہیں،﴿وَبَرْقٌ﴾(اور بجلی‘ چمک)’’برق‘‘ بادل کے ساتھ نظر آنے والی تیز چمک اور روشنی کو کہتے ہیں،﴿كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُم﴾یعنی جب جب ان تاریکیوں میں بجلی چمکتی ہے﴿مَّشَوْا فِيهِ﴾تو وہ اس کے سہارے چلتے ہیں‘﴿وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا﴾اور جب ان پر تاریکی چھا جاتی ہے تو وہ کھڑے ہو جاتے ہیں‘ یعنی حیران و پریشان ہوکر ٹھہر جاتے ہیں[1]۔
چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالی نے کفر و نفاق میں ان کی مثال کچھ ایسے لوگوں سے دی ہے جو تاریک شب میں کسی چٹیل میدان میں ہوں ‘ ساتھ ہی بارش سے بھی دوچار ہوں جس میں تاریکیاں ہوں‘ جس کا وصف یہ ہے کہ ایسی صورت میں چلنے والے کے لئے چلنا ممکن نہیں،اور اس میں ’’ صَّوَاعِقِ ‘‘(سخت قسم کی آواز ‘ بادل کی کڑک)ہوں جس کا وصف یہ ہے کہ اس کی ہولناکی اور خوفناک آوازسننے والے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں،اور ’’برق‘‘(بجلی)ہوجس کا وصف یہ ہے کہ اندیشہ ہے کہ ان کی نگاہوں کو اچک لے اور تیز چمک سے انہیں بے نور کردے،یہ ایک مثال ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم اور اس کے ساتھ کافروں اور منافقوں کے سلوک وبرتاؤ کے سلسلہ میں بیان فرمائی ہے،چنانچہ ’’بارش‘‘ قرآن کریم ہے،کیونکہ جس طرح بارش جسموں کی زندگی ہے اسی طرح قرآن کریم دلوں کی زندگی(روح)ہے،اور
[1] دیکھئے:جامع البیان عن تاویل آی القرآن،للطبری 1/333 تا 362،والجامع لاحکام القرآن للقرطبی،1/233 تا 242،وتفسیر البغوی،1/53،54،وتفسیر القرآن العظیم لابن کثیر،1/53،وتیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان،للسعدی،ص 27۔