کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 178
سے بحث و مباحثہ کرو،اور نہ اس لئے کہ اس کے ذریعہ مجلسوں کا انتخاب کرو،جس نے ایسا کیا اس کے لئے جہنم ہے۔
عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’لا تعلموا العلم لثلاث:لتماروا بہ السفھائ،وتجادلوا بہ العلمائ،ولتصرفوا بہ وجوہ الناس إلیکم،وابتغوا بقولکم ما عند اللّٰه؛ فانہ یدوم ویبقی وینفد ما سواہ‘‘[1]۔
تین مقاصد کے لئے علم نہ حاصل کرو:تاکہ بے وقوفوں سے بحث و مباحثہ کرو،علماء سے جھگڑا ا ور مناظرہ کرواور اس سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرو،بلکہ اپنے قول سے وہ چیز(جنت)طلب کرو جو اللہ کے پاس ہے،کیونکہ وہی چیز باقی رہنے الی ہے اور جو کچھ اس کے علاوہ ہے ختم ہوجانے والا ہے۔
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اللہ کے لئے عمل کرنے والے کے لئے سعادت و نیک بختی کی ضمانت لی ہے،چنانچہ انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے:
’’من کانت الآخرۃ ھمہ جعل اللّٰه غناہ في قلبہ،وجمع لہ شملہ،وأتتہ الدنیا وھي راغمۃ،ومن کانت الدنیا ھمہ جعل اللّٰه فقرہ بین عینیہ،وفرق علیہ شملہ،ولم یأتہ من الدنیا إلا ماقدر لہ‘‘[2]۔
جس کی فکر آخرت(پر مرکوز)ہوگی اللہ تعالیٰ اس کی مالداری اس کے دل میں کر دے گا،اس کے متفرق امور کو اکٹھا کر دے گا،اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہوکر آئے گی،اورجس کی فکر دنیا(پرمرکوز)ہوگی اللہ تعالیٰ اس کی فقیری اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان(پیشانی پر)کر دے گا،اس کے امور کو منتشر کر دے گا اور دنیا سے بھی اسے اتنا ہی ملے گا جتنااس کے لئے مقدر ہے۔
[1] سنن الدارمی 1/70 موقوفاً،وابن ماجہ بروایت ابو ہریرہ رضی اللّٰه عنہ،المقدمۃ،باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ 1/96،حدیث نمبر:(260)اس حدیث کو علامہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح سنن ابن ماجہ(1/48)اور صحیح الترغیب والترھیب(1/48)میں حسن قرار دیا ہے۔
[2] ترمذی،کتاب صفۃ القیامۃ،باب:حدثنا قتیبۃ 4/642،حدیث نمبر:(2465)امام ابن ماجہ نے بھی اسی کے قریب قریب حدیث زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے،کتاب الزھد،2/1375،حدیث نمبر:(4105)،اس حدیث کو علامہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح الجامع(5/351)اور سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ(حدیث نمبر:950)میں صحیح قرار دیا ہے۔