کتاب: ہدایت کا نور اور ظلمات کے اندھیرے - صفحہ 177
مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ(٢٠)﴾[1]۔
جس کا ارادہ آخرت کی کھیتی کا ہو ہم اسے اس کی کھیتی میں ترقی دیں گے‘ اور جو دنیا کی کھیتی کی طلب رکھتا ہو ہم اسے اس میں سے ہی کچھ دے دیں گے اور ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔
مزیداللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ(٢٠٠)﴾[2]۔
بعض لوگ ایسے(بھی)ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں دے،ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’من تعلم علماً مما یبتغی بہ وجہ اللّٰه عز وجل لا یتعلمہ إلا لیصیب بہ عرضاً من الدنیا لم یجد عرف الجنۃ یوم القیامۃ‘‘ یعنی ریحھا[3]۔
جو کوئی اللہ عز وجل کی خوشنودی کی خاطر حاصل کیا جانے والا علم محض کسی دنیوی ساز و سامان کے حصول کے لئے سیکھے وہ قیامت کے روز جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا۔
جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے:
’’لا تعلموا العلم لتباھوا بہ العلمائ،ولا لتماروا بہ السفھائ،ولا لتخیروا بہ المجالس،فمن فعل ذلک فالنار النار‘‘[4]۔
اس مقصد سے علم نہ حاصل کرو کہ اس کے ذریعہ تم علما ء پر فخر کرو‘ نہ اس لئے کہ اس کے ذریعہ کم علموں
[1] سورۃ الشوریٰ:20۔
[2] سورۃ البقرہ:200۔
[3] ابوداود،کتاب العلم،باب:فی طلب العلم لغیر اللّٰه 3/323،حدیث نمبر:(3664)ابن ماجہ،المقدمۃ،باب الانتفاع بالعلم 1/93،حدیث نمبر:(252)اس حدیث کو علامہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح سنن ابن ماجہ(1/48)میں صحیح قرار دیا ہے۔
[4] ابن ماجہ،المقدمۃ،باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ 1/93،حدیث نمبر:(254)اس حدیث کو علامہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح سنن ابن ماجہ(1/48)اور صحیح الترغیب(1/46)میں صحیح قرار دیا ہے،مذکورہ دونوں جگہوں پر اور بھی حدیثیں ہیں۔